Tuesday 28 August 2012

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے

ہم تو یُوں خُوش تھے کہ اِک تار گریبان میں ہے
کیا خبر تھی کہ بہار اُس کے بھی ارمان میں ہے
ایک ضرب اور بھی اے زندگئ تیشہ بدست
سانس لینے کی سکت اب بھی مِری جان میں ہے
میں تُجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تُو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے
فاصلے قُرب کے شُعلوں کو ہوا دیتے ہیں
میں تِرے شہر سے دُور اور تُو مِرے دھیان میں ہے
سرِ دیوار، فروزاں ہے ابھی ایک چراغ
اے نسیمِ سحری! کُچھ ترے امکان میں ہے
دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے گاہے گاہے
جیسے اب بھی تِری آواز مِرے کان میں ہے
خلقتِ شہر کے ہر ظُلم کے باوصف فرازؔ
ہائے وہ ہاتھ کہ اپنے ہی گریبان میں ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment