سَرِ حُسنِ کلام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
کبھی شہر شہر میں عام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
کبھی خاک پر بھی لِکھیں تو مَوجِ ہَوا مِٹا کے اُلجھ پڑے
کبھی زینتِ دَر و بام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
بَھرے دن کی زرد تمازتوں میں بُجھے بُجھے سے رہے، مگر
میرے دل سے تُو نے کُھرَچ دیا تیرے دل سے میں نے گنوا دیا
کبھی مِثلِ نقشِ دوام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
اِسے راکھ ہوتی ہوئی سحر کی ہَوا کے ہاتھ سے چِھین لے
کہ متاعِ محفلِ شام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
ابھی محسنِؔ بے خبر مِلے تو نئے دِنوں کو اُدھیڑنا
کہ گئے دِنوں کا پیام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment