Monday 13 August 2012

سنگدل کتنے تیرے شہر کے منظر نکلے

سنگدل کتنے تیرے شہر کے منظر نکلے
جن کی مہماں تھی شبِ غم، وہی بے گھر نکلے
ایسی آنکھوں سے تو بہتر تھا کہ اندھے ہوتے
ہم جسے آئینہ سمجھیں، وہی پتّھر نکلے
دن بُرے ہوں تو گُہر پر بھی ہو کنکر کا گماں
بَن پڑے بات تو صحرا بھی سمندر نکلے
آبگینوں کو جو توڑا تو وہ ٹھہرے مٹّی
سنگریزوں کو جو پرکھا تو وہ مَرمَرنکلے
جن کو نفرت سے ہوا راہ میں چھوڑ آئی تھی
آسماں پر وہی ذرّے مہ و اختر نکلے
شہر والوں نے جنہیں دار کا مُجرم سمجھا
وہ گنہگار، محبت کے پیمبر نکلے
خوف سے موت کی ہِچکی بھی اَٹک جاتی ہے
اس خموشی میں کہاں کوئی سخنور نکلے
میری ہر سانس تھی میزانِ عدالت محسنؔ
جتنے محشر تھے میرے جسم کے اندر نکلے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment