Thursday 23 August 2012

ہم مسافر ہیں میری جان

ہم مسافر ہیں میری جان 

ہم مسافر ہیں میری جان مسافر تیرے
ہم تو بارش سے بھی ڈر جاتے ہیں
اور دھوپ سے بھی
اپنے قدموں کے نشانوں سے مِٹائیں جو لہو کے دھبے
راستے غصے میں آ جاتے ہیں
ہم مسافر ہیں
کرایوں کو ترستے ہوئے خیموں میں گِھرے
گھر سے گھبرائے ہوئے یونہی ہوا کرتے ہیں
اجنبی شہروں کے واہموں میں پڑے
خوف اور عدم تحفظ سے چُراتے ہیں نگاہیں
تو کہیں اور ہی جا پڑتے ہیں
کب تلک کون ہمیں رکھے گا مہمان، محبت کے سوا
اور کسی روز ہمیں یہ بھی کہے گی کہ خدا ہی حافظ
ہم جو لوگوں سے جِھجھکتے ہیں، تو مجبُوری ہے
ہم جو رَستوں میں بھٹکتے ہیں، تو محصُوری ہے
ہم مسافر ہیں میری جان مسافر تیرے
ہم اگر تُجھ سے بِچھڑتے ہیں تو مہجُوری ہے

فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment