Friday, 10 August 2012

تیرے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے

تیرے بدن سے جو چُھو کر اِدھر بھی آتا ہے
مثالِ رنگ، وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے
تمام شب جہاں جلتا ہے اِک اُداس دِیا
ہَوا کی راہ میں اِک ایسا گھر بھی آتا ہے
وہ مُجھ کو ٹُوٹ کے چاہے گا،چھوڑ جائے گا
مُجھے خبر تھی، اُسے یہ ہُنر بھی آتا ہے
اُجاڑ بَن میں اُترتا ہے ایک جگنو بھی
ہَوا کے ساتھ کوئی ہمسفر بھی آتا ہے
وفا کی کون سی منزل پہ اُس نے چھوڑا تھا
کہ، وہ تو یاد ہمیں بُھول کر بھی آتا ہے
جہاں لہُو کے سمندر کی حد ٹھہرتی ہے
وہیں جزیرۂ لعل و گُہر بھی آتا ہے
چلے جو ذکر فرشتوں کی پارسائی کا
تو زیرِ بحث، مقامِ بشر بھی آتا ہے
ابھی سِناں کو سنبھالے رہیں عدو میرے
کہ ان صفوں میں کہیں میرا سَر بھی آتا ہے
کبھی کبھی مُجھے مِلنے بلندیوں سے کوئی
شعاعِ صبح کی صُورت اُتر بھی آتا ہے
اِسی لیے میں کسی شب نہ سو سکا محسنؔ
وہ ماہتاب کبھی بام پر بھی آتا ہے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment