Saturday 25 August 2012

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

یُوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تُجھے اے دلِ تنہا میرے
وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مِرے ہیں، یہی اعداء میرے
میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے، اے صاحبِ دریا میرے
مُجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نِسبت
پر مقدّر میں وہی پیاس کے صحرا میرے
دیدہ و دل تو تِرے ساتھ ہیں اے جانِ فرازؔ
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment