Wednesday 22 August 2012

تفریق

تفریق

بڑے لوگوں کے اِن اونچے چمکتے دِلنشیں بنگلوں کی
بنیادوں میں کس کا خون شامل ہے
بڑے لوگوں کی گاڑی میں
صفی پٹرول کے بدلے، یہ کس کا خون جلتا ہے
یہ مِلّیں، کارخانے کتنوں کے ارماں
دھوئیں کے سنگ اڑاتے ہیں
سیاستدان کس طاقت پہ ایوانوں میں آتے ہیں
یہاں کتنے ہی مفلس ہیں
جنہیں دو وقت کی روٹی نہیں مِلتی
مزے لے کر ڈبل روٹی، یہ کِس کے کتے کھاتے ہیں
یہ مفلس کون بچے ہیں
جنہیں بستے کتابیں تک نہیں مِلتیں
بڑے اونچے سکولوں میں، پجارو میں
یہ کِس کے بچے جاتے ہیں
خطا یاں کون کرتا ہے، تو پکڑا کون جاتا ہے
سبھی قانون مفلس تک، کہ سارے ضابطے ان پر
مجھے شِکوہ نہیں کوئی، مگر اِتنا بتا مولا
سبھی دنیا جو تیری ہے، تو یہ تفریق ہے کیسی
یہ کیا اِنصاف ہے مولا، بَھلا یہ منصفی کیسی

صغیر صفی

No comments:

Post a Comment