Monday 6 August 2012

چہرے پہ اپنا دست کرم پھیرتی ہوئی

چہرے پہ اپنا دستِ کرم پھیرتی ہوئی
ماں رو پڑی ہے سَر کو مِرے چومتی ہوئی
اب کتنے دن رہو گے مِرے پاس تم یہاں
تھکتی نہیں ہے مجھ سے یہی پوچھتی ہوئی
رہتی ہے جاگتی وہ مِری نیند کے لیے
بچوں کو مجھ سے دور پرے روکتی ہوئی
بے چین ہے وہ کیسے مِرے چین کے لیے
آتے ہوئے دنوں کا سفر سوچتی ہوئی
کہتی ہے کیسے کٹتی ہے پردیس میں تِری
آنکھوں سے اپنے اَشکِ رواں پونجھتی ہوئی
ہر بار پوچھتی ہے کہ کس کام پر ہو تم
فخریؔ وہ سخت ہاتھ مِرے دیکھتی ہوئی

زاہد فخری

No comments:

Post a Comment