امرت تیری چاہت کا پیے بِن نہ رہا جائے
یہ جُرم اگر ہے تو کیے بِن نہ رہا جائے
جب ذکر ہو تسکینِ دِل و جاں کا سرِ بزم
مجھ سے تو تیرا نام لیے بِن نہ رہا جائے
وہ رُت ہے کہ ہر سانس عذابِ رگِ جاں ہے
جب جب مَیں ہَوا بن کے تیرے شہر سے گزروں
دستک تیرے در پر بھی دیے بن نہ رہا جائے
سایہ میری تنہائی کا دُشمن ہے سفر میں
لیکن اِسے ہمراہ لیے بِن نہ رہا جائے
کیا موسمِ آغازِ جنوں ختم کو پہنچا؟
کیوں دامنِ صد چاک سیے بِن نہ رہا جائے؟
محسنؔ کوئی آنسو ہی جلاؤ سرِ مژگاں
مجھ سے تو اندھیرے میں دیے بِن نہ رہا جائے
محسن نقوی
.بہت خوب
ReplyDeleteپسندیدگی کے لئے شکریہ محترمہ کوثر بیگ صاحبہ
ReplyDelete