Saturday 25 August 2012

ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے

ایسے چُپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
تیرا ملنا بھی جُدائی کی گھڑی ہو جیسے
اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے
کتنے ناداں ہیں تِرے بُھولنے والے کہ تُجھے
یاد کرنے کے لیے عمر پڑی ہو جیسے
تیرے ماتھے کی شِکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر
یہ گِرہ اب کے مِرے دل میں‌ پڑی ہو جیسے
منزلیں دُور بھی ہیں، منزلیں نزدیک بھی ہیں
اپنے ہی پاؤں میں‌ زنجیر پڑی ہو جیسے
آج دل کھول کے روئے ہیں‌ تو یُوں‌ خُوش ہیں‌ فرازؔ
چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment