Friday 3 August 2012

نور برسا پھول سے اور خون برسا سنگ سے

نور برسا پھول سے اور خون برسا سنگ سے
اہتمامِ فصلِ گل ہے اپنے اپنے رنگ سے
پا شکستہ ہوں مگر محرومِ ذوقِ دل نہیں
منزلوں کو دیکھ لیتا ہوں کئی فرسنگ سے
مجھ کو آوارہ ہواؤ! ساتھ اپنے لے چلو
میرا جی گھبرا گیا ہے اس جہانِ تنگ سے
محفلِ گل میں، کوئی تارا ضیاء پھیلا گیا
دیر تک رونق رہی موجِ ہوائے رنگ سے
آخرِ شب یوں برستے ہیں میری آنکھوں سے اَشک
قطرہ قطرہ ہو کے جیسے خون ٹپکے سنگ سے
نور بن کر فضا میں پھیلتا ہے کوئی گیت
راگ بن بن کر جوانی پھوٹتی ہے چنگ سے
دور تک گہری اُداسی کے سوا کچھ بھی نہیں
زندگی شہزادؔ گزرے گی مگر کس ڈھنگ سے

شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment