نہ دل میں لَو نہ گریباں ہے سرخرو میرا
کہ میرے کام نہ آیا کبھی، لہو میرا
سپرد مَوجِ ہوا کر نہ میری رُسوائی
وہ تو ذِکر کرے یُوں بھی کُو بہ کُو میرا
میرا سلامِ اَدب خاکِ مقتلِ یاراں
متاعِ ضبط چھُپائے پِھروں میں لوگوں سے
کہ مُجھ سے درد کسی دِن سُنے گا تُو میرا
ہجومِ شہر سے مِلتا نہ تھا مزاج اُس کا
بِچھڑ کے بھی وہ لگا مُجھ کو ہُو بہُو میرا
بھنور کی زد میں ہوں لیکن محیطِ دریا ہوں
کہ عکس پھیلتا جاتا ہے چار سُو میرا
میں اسکے جھوُٹ کے صدقے میں سچ کہوں محسن
مُجھے عزیز ہے کتنا بہانہ جُو میرا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment