Thursday 16 August 2012

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
جو اپنا ہو نہیں سکتا ہے
اُس شخص کو اپنا دیکھا ہے

وہ شخص کہ جِس کی خاطر ہم
اِس دیس پِھریں، اُس دیس پِھریں
جوگی کا بنا کر بَھیس پِھریں
چاہت کے نِرالے گِیت لِکھیں
جی موہنے والے گِیت لِکھیں
دَھرتی کے مہکتے باغوں سے
کلیوں کی جھولی بَھر لائیں
اَمبر کے سجِیلے مَنڈل سے
تاروں کی ڈولی بَھر لائیں

ہاں کِس کے لیے، سب اُس کے لیے
وہ جِس کے لب پر ٹیسُو ہیں
وہ جس کے نیناں آہُو ہیں
جو خار بھی ہے اور خُوشبُو بھی
جو درد بھی ہے اور دارُو بھی
وہ اَلھّڑ سی، وہ چنچل سی
وہ شاعر سی، وہ پاگل سی
لوگ آپ ہی آپ سمجھ جائیں
ہم نام نہ اُس کا بتلائیں

اے دیکھنے والو! تُم نے بھی
اُس نار کی پِیت کی آنچوں میں
اِس دل کا تپنا دیکھا ہے
کل ہم نے سپنا دیکھا ہے

ابن انشا

No comments:

Post a Comment