Friday 27 April 2018

ابھی مجھے تم جو آ کے دیکھو

Schrodinger's Cat

ابھی مجھے تم جو آ کے دیکھو
تو رمز افشا یہ ہو سکے گا
جو تیری یادوں کا زہرِ قاتل
مِری رگوں میں اتر چکا تھا 
نجانے اس کے اثر سے اس پَل
فنا سے واقف بھی ہو چکا ہوں

مرے جہان محبت پہ چھائے جاتے ہیں

مِرے جہانِ محبت پہ چھائے جاتے ہیں
بھلا رہا ہوں مگر یاد آئے جاتے ہیں
وہی ہیں عشق کے مارے، وہی ہیں دل والے
جو تیرے واسطے آنسو بہائے جاتے ہیں
جہانِ عشق میں اے سیر دیکھنے والے
طرح طرح کے تماشے دکھائے جاتے ہیں

میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں

میں جو مدہوش ہوا ہوں، جو مجھے ہوش نہیں
سب نے دی بانگِ محبت، کوئی خاموش نہیں
میں تِری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا
ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں
تُو نہیں ہے نہ سہی، کیف نہیں غم ہی سہی
یہ بھی کیا کم ہے کہ خالی مِرا آغوش نہیں

تجھ پر مری محبت قربان ہو نہ جائے

تجھ پر مِری محبت قربان ہو نہ جائے
یہ کفر بڑھتے بڑھتے ایمان ہو نہ جائے
اللہ ری بے نقابی اس جانِ مدعا کی
میری نگاہِ حسرت حیران ہو نہ جائے
میری طرف نہ دیکھو، اپنی نظر کو روکو
دنیائے عاشقی میں ہیجان ہو نہ جائے

مسرور بھی ہوں خوش بھی ہوں لیکن خوشی نہیں

مسرور بھی ہوں خوش بھی ہوں لیکن خوشی نہیں 
تیرے بغیر زیست تو ہے، زندگی نہیں 
میں دردِ عاشقی کو سمجھتا ہوں جان و روح 
کمبخت وہ بھی دل میں کبھی ہے، کبھی نہیں 
لا غم ہی ڈال دے مِرے دستِ سوال میں 
میں کیا کروں خوشی کو جو تیری خوشی نہیں 

بنے ہیں دشت میں دیوار و در وغیرہ بھی

بنے ہیں دشت میں دیوار و در وغیرہ بھی
ہمارے ساتھ ہے زعمِ سفر وغیرہ بھی
مِرے مدار میں وہ خوف سے اتر نہ سکے 
خلا میں لٹکے ہیں شمس و قمر وغیرہ بھی
یہ کس ستارے سے آئی ہے منظروں میں چمک 
دمک اٹھے ہیں مِرے بام و در وغیرہ بھی

لفظوں میں اپنے اشک پرو کر دکھاؤں گا

لفظوں میں اپنے اشک پِرو کر دکھاؤں گا 
میں شاعری سے درد کے سانچے بناؤں گا
چہرے سے اپنے گردِ ماہ و سال ایک دن 
جھاڑوں گا، آئینے کا تمسخر اڑاؤں گا
ہر کیفیت سے لطف اٹھانا ہے شام تک 
رو کر لکھوں گا ہنس کے تِرے گیت گاؤں گا

وہ خواب ٹوٹ گیا سازشیں نئی ہوئی ہیں

وہ خواب ٹوٹ گیا سازشیں نئی ہوئی ہیں
شکستگی سے یہ آنکھیں شکستہ بھی ہوئی ہیں
احد کے لطف پہ موقوف ہے کرم کی نظر 
وضاحتیں تو بہت آدمی نے دی ہوئی ہیں
ہماری آنکھ سے اشجار نم شگفتہ ہوئے 
ہمارے خون سے یہ ٹہنیاں ہری ہوئی ہیں

دیکھیے اور ابھی سامنے آتا کیا ہے

دیکھئے اور ابھی سامنے آتا کیا ہے
آئینہ دیکھنے والوں کو دکھاتا کیا ہے
ہم کو معلوم ہے پانی پہ کھڑی ہے دنیا
ڈوبنا سب کا مقدر ہے، ڈراتا کیا ہے
کیا عجب ہے کہ سفر تیرا سفارت بن جائے
لوٹ کے آنے کی امید میں جاتا کیا ہے

مری زندگی کا عجب بھاؤ ہے

مِری زندگی کا عجب بھاؤ ہے
خدا کی طرح سب کا برتاؤ ہے
کٹی ہیں پتنگیں تو لوٹی ہے ڈور
نہ جوجھو بہت اس میں الجھاؤ ہے
بڑی تلخ ہوتی ہے سرکار کی
گلے سے کلیجے تلک گھاؤ ہے

Wednesday 25 April 2018

بغاوت فرض ہوتی ہے

بغاوت فرض ہوتی ہے

سنو اندھو، سنو بہرو
بغاوت فرض ہوتی ہے
اپاہج، مردہ دل لوگو
بغاوت فرض ہوتی ہے

جہاں حاکم نہ ہو اللہ 
جہاں قانون ناں قرآں

سب گناہ و حرام چلنے دو

سب گناہ و حرام چلنے دو
کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو
ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی
یونہی سب بے لگام چلنے دو
بے کسی بھوک اور مصیبت کا
خوب ہے اہتمام، چلنے دو

کیوں مرض لا دوا نہیں بنتا

کیوں مرض لادوا نہیں بنتا
تُو مری کیوں دوا نہیں بنتا
کیوں مرض لا دوا نہیں بنتا
میری جب تُو دعا نہیں بنتا
سب کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
کوئی اپنا سدا نہیں  بنتا

Wednesday 11 April 2018

یہ واعظ کا طرز بیاں اللہ اللہ

قطعہ

یہ واعظ کا طرز بیاں اللہ اللہ 
بلند اس کا آہنگ جو ہوتا رہے گا
بولے گا یوں جو حق ہمسائیگی پر
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا

انور مسعود

اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے

اگلے دن کچھ ایسے ہوں گے 
چھلکے پھلوں سے مہنگے ہوں گے 
ننھی ننھی چیونٹیوں کے بھی 
ہاتھی جیسے سائے ہوں گے 
بھیڑ تو ہو گی لیکن پھر بھی 
سُونے سُونے رستے ہوں گے 

ختم ہو جائیں گے سب تکیے بھروسے ایک دن

لاریب ساعت

ختم ہو جائیں گے سب تکیے، بھروسے ایک دن
اک  فقط حسنِ عمل کا  آسرا رہ جائے گا
اس گھڑی کا خوف لازم ہے کہ انورؔ جس گھڑی
دھر لئے جائیں گے سب اور سب دھرا رہ جائے گا

انور مسعود

کہ دیسی گھی سے بھی بُو آنے لگی ہے

قطعہ

زرا سا سونگھ لینے سے بھی انورؔ 
طبیعت سخت متلانے لگی ہے
مہذب اس قدر میں ہو گیا ہوں
کہ دیسی گھی سے بھی بُو آنے لگی ہے 

انور مسعود

درمیاں گر نہ ترا وعدۂ فردا ہوتا

درمیاں گر نہ تِرا وعدۂ فردا ہوتا 
کس کو منظور یہ زہرِ غمِ دنیا ہوتا 
کیا قیامت ہے کہ اب میں بھی نہیں وہ بھی نہیں 
دیکھنا تھا تو اسے دور سے دیکھا ہوتا 
کاسۂ زخم طلب لے کے چلا ہوں خالی 
سنگ ریزہ ہی کوئی آپ نے پھینکا ہوتا 

وقت ہی اتنا لگا شام کی مسماری میں

وقت ہی اتنا لگا شام کی مسماری میں
صبح بھی خرچ ہوئی رات کی تیاری میں
کتنی مشکل سے ملی مجھ کو کلیدِ درِ چشم
اور اب دیکھا تو کچھ بھی نہیں الماری میں
اس کو تکنا تھا کہ آنکھوں کی تھکن ختم ہوئی
آخرش نیند مکمل ہوئی بیداری میں

سانس کی دھار ذرا گھستی ذرا کاٹتی ہے

سانس کی دھار ذرا گھِستی ذرا کاٹتی ہے
کیا درانتی ہے کہ خود فصلِ فنا کاٹتی ہے
ایک تصویر جو دیوار سے الجھی تھی کبھی
اب مِری نظروں میں رہنے کی سزا کاٹتی ہے
تیری سرگوشی سے کٹ جاتا ہے یوں سنگِ سکوت
جس طرح حبس کے پتھر کو ہوا کاٹتی ہے

زندگی گھٹنے کی رفتار بڑھی ہے کہ نہیں

زندگی گھٹنے کی رفتار بڑھی ہے کہ نہیں
یہ بتانے کے لیے کوئی گھڑی ہے کہ نہیں
شور سے محض خموشی ہی نہ ٹوٹی ہو گی
جانے کمرے میں کوئی چیز بچی ہے کہ نہیں
پیڑ کے کان میں اک بات کہی تھی میں نے
پھول بکھرے کہ نہیں، شاخ کٹی ہے کہ نہیں

Saturday 7 April 2018

جمہوریت؛ دس کروڑ انسانو

جمہوریت

دس کروڑ انسانو 
زندگی سے بیگانو
صرف چند لوگوں نے 
حق تمہارا چھینا ہے 
خاک ایسے جینے پر 
یہ بھی کوئی جینا ہے

کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم

کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم

یہ شعلہ نہ دب جاۓ یہ آگ نہ سو جائے
پھر سامنے منزل ہے ایسا نہ ہو کھو جائے
ہے وقت یہی یارو ہونا ہے جو ہو جائے
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
ہر جابر و ظالم کا کرتے ہی چلو سر خم

تنہا اک دشت پر خطر میں ہوں​

جب تلک پیکرِ بشر میں ہوں
منقسم قدرِ خیر و شر میں ہوں
در بدر ٹھوکریں میں کھا کر بھی
دیکھ تیری ہی رہگزر میں ہوں
شعلہ بھڑکے تو روشنی مجھ سے
راکھ کا ڈھیر ہو، شرر میں‌ ہوں

زندگی بھر ایک ہو بس کاروبار

زندگی بھر ایک ہو بس کاروبار 
عشق ہو یا کار ہائے روزگار 
کر لیا ہوتا کسی سے میں نے پیار 
زندگی میری بھی ہوتی زرنگار
یادِ ماضی ناچتی ہے، اور میں
وقت کے نوٹوں کو کرتا ہوں نثار 

واسوخت وہ جسے اپنی ادا پر ناز تھا

واسوخت

وہ جسے اپنی ادا پر ناز تھا
(جانے کیا اُس کا بھلا سا نام تھا)
کہنے لگی
کیا تمہیں ادراک ہے
ساتھ میرا اور تمہارا ہے فقط کچھ دیر کا
پھر تم آخر تکتے رہتے ہو مجھے ہر وقت کیوں

Thursday 5 April 2018

جب ترے نین مسکراتے ہیں

جب تِرے نین مسکراتے ہیں
زیست کے رنج بھول جاتے ہیں
کیوں شکن ڈالتے ہو ماتھے پر
بھول کر آ گئے ہیں، جاتے ہیں
کشتیاں یوں بھی ڈوب جاتی ہیں
ناخدا کس لئے ڈراتے ہیں

رقص کرتا ہوں جام پیتا ہوں

رقص کرتا ہوں جام پیتا ہوں
عام ملتی ہے، عام پیتا ہوں
جھوٹ میں نے کبھی نہیں بولا
زاہدان کرام! پیتا ہوں
رخ ہے پر نور تو تعجب کیا
بادۂ لالہ فام پیتا ہوں

دل کو دل سے کام رہے گا

دل کو دل سے کام رہے گا 
دونوں طرف آرام رہے گا 
صبح کا تارا پوچھ رہا ہے 
کب تک دور جام رہے گا 
بدنامی سے کیوں ڈرتے ہو 
باقی کس کا نام رہے گا؟

آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا

آنکھوں سے تِری زلف کا سایہ نہیں جاتا 
آرام جو دیکھا ہے بھلایا نہیں جاتا 
اللہ رے نادان جوانی کی امنگیں
جیسے کوئی بازار سجایا نہیں جاتا 
آنکھوں سے پلاتے رہو ساغر میں نہ ڈالو 
اب ہم سے کوئی جام اٹھایا نہیں جاتا 

کوئی خواب ایسا دیکھو تعبیر گنگنائے

کوئی خواب ایسا دیکھو تعبیر گنگنائے
آزادئ وطن کی تصویر گنگنائے
سُونی پڑی ہے جنت سُر ہے نہ کوئی سرگم
کوئی ساز ایسا چھیڑو کشمیر گنگنائے
کب تک رہے گی وادی اغیار کے کرم پر
تدبیرایسی سوچوتقدیر گنگنائے

دریائے دل کے سارے پشتے ہیں سوگوار

دریاۓ دل کے سارے پشتے ہیں سوگوار
موجیں ہیں سر پٹختی دھارے ہیں سوگوار
شمس و قمر پریشاں ہیں امن آسماں کے
مدھم ہیں کہکشائیں، تارے ہیں سوگوار
ایثار کی دھنک کی رنگت اڑی اڑی ہے
سب کرنیں سرنگوں ہیں قطرے ہیں سوگوار

تیرے ہونٹوں پہ جو ہنسی پھیلے

تیرے ہونٹوں پہ جو ہنسی پھیلے
دل کی بستی میں تازگی پھیلے
سر جھکائے گزر گئیں صدیاں 
سر اٹھاؤ کہ روشنی پھیلے
پیچھے مڑ مڑ کے دیکھنے والو 
آگے دیکھو کہ آگہی پھیلے

نظروں سے گرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتے

نظروں سے گرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتے
حد ہو گئی، ہم حد سے گزر کیوں نہیں جاتے
وہ قبر نئی کس کی بنی ہے، یہ بتا دو؟ 
کیا بات ہے دانستہ اُدھر کیوں نہیں جاتے
اُکساتے ہو کیوں غوطہ لگانے پہ ہمیں تم
موتی ہو تو ساحل پہ بکھر کیوں نہیں جاتے

اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے

اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے
سمندر میں سفینہ جس طرح غرقاب ملتا ہے
نہ جانے کیوں تمہارے در پہ آ جاتا ہوں میں ورنہ
جہاں میں ہوں، سکوں میرے لیے بے تاب ملتا ہے
بڑی تیزی سے کشتی جس طرف بہتی چلی جائے
ہمیشہ یاد رکھنا اس طرف گرداب ملتا ہے

جس کا بدن ہے خوشبو جیسا جس کی چال صبا سی ہے

جس کا بدن ہے خوشبو جیسا جس کی چال صبا سی ہے 
اس کو دھیان میں لاؤں کیسے، وہ سپنوں کا باسی ہے 
پھولوں کے گجرے توڑ گئی آکاش پہ شام سلونی شام 
وہ راجا خود کیسے ہوں گے جن کی یہ چنچل داسی ہے 
کالی بدریا سیپ سیپ تو بوند بوند سے بھر جائے گا 
دیکھ یہ بھوری مٹی تو بس میرے خون کی پیاسی ہے 

یارو ہر غم غم یاراں ہے قریب آ جاؤ

یارو! ہر غم غمِ یاراں ہے قریب آ جاؤ 
پیارو! پھر فصلِ بہاراں ہے قریب آ جاؤ 
دور ہو کر بھی سنیں تم نے حکایاتِ وفا 
قرب میں بھی وہی عنواں ہے قریب آ جاؤ 
ہم محبت کے مسافر ہیں کہیں دیکھ نہ لے 
گھات میں گردشِ دوراں ہے قریب آ جاؤ 

بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں

بے طلب ایک قدم گھر سے نہ باہر جاؤں
ورنہ میں پھاند کے ہی سات سمندر جاؤں
دستانیں ہیں مکانوں کی زبانوں پہ رقم
پڑھ سکوں میں تو مکانوں سے بیاں کر جاؤں
میں منظم سے بھلا کیسے کروں سمجھوتا 
ڈوبنے والے ستاروں سے میں کیوں ڈر جاؤں