Thursday 5 April 2018

جس کا بدن ہے خوشبو جیسا جس کی چال صبا سی ہے

جس کا بدن ہے خوشبو جیسا جس کی چال صبا سی ہے 
اس کو دھیان میں لاؤں کیسے، وہ سپنوں کا باسی ہے 
پھولوں کے گجرے توڑ گئی آکاش پہ شام سلونی شام 
وہ راجا خود کیسے ہوں گے جن کی یہ چنچل داسی ہے 
کالی بدریا سیپ سیپ تو بوند بوند سے بھر جائے گا 
دیکھ یہ بھوری مٹی تو بس میرے خون کی پیاسی ہے 
جنگل میلے اور شہروں میں دھرا ہی کیا ہے میرے لئے 
جگ جگ جس نے ساتھ دیا ہے وہ تو میری اداسی ہے 
لوٹ کے اس نے پھر نہیں دیکھا جس کے لئے ہم جیتے ہیں 
دل کا بجھانا اک اندھیر ہے یوں تو بات ذرا سی ہے 
چاند نگر سے آنے والی مٹی کنکر رول کے لاۓ 
دھرتی ماں چپ ہے جیسے کچھ سوچ رہی ہو خفا سی ہے 
ہر رات اس کی باتیں سن کر تجھ کو نیند آتی ہے ظفرؔ 
ہر رات اسی کی باتیں چھیڑیں یہ تو عجب بپتا سی ہے 

یوسف ظفر

No comments:

Post a Comment