Friday 27 April 2018

میں جو مدہوش ہوا ہوں جو مجھے ہوش نہیں

میں جو مدہوش ہوا ہوں، جو مجھے ہوش نہیں
سب نے دی بانگِ محبت، کوئی خاموش نہیں
میں تِری مست نگاہی کا بھرم رکھ لوں گا
ہوش آیا بھی تو کہہ دوں گا مجھے ہوش نہیں
تُو نہیں ہے نہ سہی، کیف نہیں غم ہی سہی
یہ بھی کیا کم ہے کہ خالی مِرا آغوش نہیں
رہ گیا ہوں تِرے جلووں میں جو میں گم ہو کر
ہائے! دنیا یہ سمجھتی ہے مجھے ہوش نہیں
درِ جاناں پہ مجھے کرنے دے سجدے زاہد
ہاں مجھے ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں
آ گئے ہیں تِرے جلوے جو مقابل میرے
میں تو میں ہوں، مِری نظروں کو بھی کچھ ہوش نہیں
چاک دامن کو مِرے دیکھ کے حیراں کیوں ہو
ہوش کی بات تو یہ ہے کہ مجھے ہوش نہیں
جانِ صد ہوش تھی شاید کہ مِری بے ہوشی
ہوش آیا ہے تو کہتا ہوں مجھے ہوش نہیں
ہائے! بہزاد یہ عالم نہ سمجھ میں آیا
اب مجھے ہوش جو آیا تو انہیں ہوش نہیں

بہزاد لکھنوی

No comments:

Post a Comment