دیکھئے اور ابھی سامنے آتا کیا ہے
آئینہ دیکھنے والوں کو دکھاتا کیا ہے
ہم کو معلوم ہے پانی پہ کھڑی ہے دنیا
ڈوبنا سب کا مقدر ہے، ڈراتا کیا ہے
کیا عجب ہے کہ سفر تیرا سفارت بن جائے
بیل بوٹے سے کوئی راہ میں کاڑھے جیسے
ہر قدم پھول کھلاتا ہے وہ آتا کیا ہے
یاد میری نہ مٹا، نام مٹا دے میرا
نقش مٹتا ہے تو دیوار گراتا کیا ہے
شاعری ہے کوئی نوشاد کا میوزک تو نہیں
شعر اچھا ہے تو پھر گا کے سناتا کیا ہے
میں تو آدھا نہ رہا ارتضیٰ دے دے کے ادھار
دیکھ لے میری طرف ہاتھ بڑھاتا کیا ہے
ارتضیٰ نشاط
No comments:
Post a Comment