Friday 27 April 2018

دیکھیے اور ابھی سامنے آتا کیا ہے

دیکھئے اور ابھی سامنے آتا کیا ہے
آئینہ دیکھنے والوں کو دکھاتا کیا ہے
ہم کو معلوم ہے پانی پہ کھڑی ہے دنیا
ڈوبنا سب کا مقدر ہے، ڈراتا کیا ہے
کیا عجب ہے کہ سفر تیرا سفارت بن جائے
لوٹ کے آنے کی امید میں جاتا کیا ہے
بیل بوٹے سے کوئی راہ میں کاڑھے جیسے
ہر قدم پھول کھلاتا ہے وہ آتا کیا ہے
یاد میری نہ مٹا، نام مٹا دے میرا
نقش مٹتا ہے تو دیوار گراتا کیا ہے
شاعری ہے کوئی نوشاد کا میوزک تو نہیں
شعر اچھا ہے تو پھر گا کے سناتا کیا ہے
میں تو آدھا نہ رہا ارتضیٰ دے دے کے ادھار
دیکھ لے میری طرف ہاتھ بڑھاتا کیا ہے

ارتضیٰ نشاط

No comments:

Post a Comment