Friday 29 September 2017

کیوں نہ مجھ کو جان سے پیارے ہوں زخموں کے چراغ

کیوں نہ مجھ کو جان سے پیارے ہوں زخموں کے چراغ
یہ نشانی کی نشانی ہیں، چراغوں کے چراغ
قصرِ شاہی میں بپا تھا جشنِ مرگِ روشنی
آندھیاں جب چاٹتی پھرتی تھیں خیموں کے چراغ
شوق جلنے کا ہمیں، ارباب کو بجھنے کا ڈر
ہم منڈیروں کے دیئے وہ بند کمروں کے چراغ

بہت عرصہ گنہگاروں میں پیغمبر نہیں رہتے

بہت عرصہ گنہگاروں میں پیغمبر نہیں رہتے
کہ سنگ و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے
ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوقِ تماشہ کی
کبھی نظریں نہیں رہتیں، کبھی منظر نہیں رہتے
بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی 
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے

سر میدان کربل لاشۂ شبیر کے ٹکڑے

سرِ میدانِ کربل لاشۂ شبیر کے ٹکڑے
جو دیکھے تو ہوئے کیا کیا دلِ ہمشیر کے ٹکڑے
رلایا ہے لہو مختار نے مجبور کو اکثر
کیے ہیں بارہا تقدیر نے تدبیر کے ٹکڑے
وہاں ملتی نہیں اب نام کو بھی کوئی رنگینی
کبھی جنت نشاں تھے وادئ کشمیر کے ٹکڑے

انسانیت کا مرکز و محور حسین ہے

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

انسانیت کا مرکز و محور حسینؓ ہے
جملہ نوازشات کا پیکر حسین ہے
اوقات کیا فرات کی، پانی کی ذات کیا
ایسے میں جب کہ وارثِ کوثر حسین ہے
منزل مری بہشت ہے، دوزخ تِرا مقام
تیرا یزید ہے، مِرا رہبر حسین ہے

Thursday 28 September 2017

ایک عالم ہے یہ حیرانی کا جینا کیسا

ایک عالم ہے یہ حیرانی کا، جینا کیسا
کچھ نہیں ہونے کو ہے اپنا یہ ہونا کیسا
خون جمتا سا رگ و پے میں ہوئے شل احساس
دیکھے جاتی ہے نظر ہول تماشا کیسا
ریگزاروں میں سرابوں کے سوا کیا ملتا
یہ تو معلوم تھا ہے اب یہ اچنبھا کیسا

بدن پہ زخم سجائے لہو لبادہ کیا

بدن پہ زخم سجائے لہو لبادہ کیا 
ہر ایک سنگ سے یوں ہم نے استفادہ کیا 
ہے یوں کہ کچھ تو بغاوت سرشت ہم بھی ہیں 
ستم بھی اس نے ضرورت سے کچھ زیادہ کیا 
ہمیں تو موت بھی دے کوئی کب گوارا تھا 
یہ اپنا قتل تو بالقصد بالارادہ کیا 

نظر آتا ہے وہ جیسا نہیں ہے

نظر آتا ہے وہ جیسا نہیں ہے 
جو کہتے ہو مگر ویسا نہیں ہے 
نہیں ہوتا ہے کیا کیا اس جہاں میں 
وہی جو چاہیۓ، ہوتا نہیں ہے 
بھرا ہے شہر فرعونوں سے اپنا 
کوئی ہوتا جو اک موسیٰ نہیں ہے 

قاتل ہوا خموش تو تلوار بول اٹھی

قاتل ہوا خموش تو تلوار بول اٹھی 
مقتل میں خونِ گرم کی ہر دھار بول اٹھی 
پوچھا سبک سروں کا نمائندہ کون ہے 
سن کر فقیہِ شہر کی دستار بول اٹھی 
اہلِ ستم کے خوف سے جو چپ تھی وہ زباں 
جب بولنے پہ آئی سرِ دار بول اٹھی 

جو پی رہا ہے سدا خون بے گناہوں کا

جو پی رہا ہے سدا خون بے گناہوں کا 
وہ شخص تو ہے نمائندہ کج کلاہوں کا 
جسے بھی چاہا صلیبِ ستم پہ کھینچ دیا 
فقیہِ شہر تو قائل نہیں گواہوں کا 
ہم اہلِ دل ہیں صداقت ہمارا شیوہ ہے 
ہمیں ڈرا نہ سکے گا جلال شاہوں کا 

دیدۂ بے رنگ میں خوں رنگ منظر رکھ دیے

دیدۂ بے رنگ میں خوں رنگ منظر رکھ دئیے 
ہم نے اس دشتِ تپاں میں بھی سمندر رکھ دئیے 
وہ جگہ جو لعل و گوہر کے لیے مقصود تھی 
کس نے یہ سنگِ ملامت اس جگہ پر رکھ دئیے 
اب کسی کی چیخ کیا ابھرے کہ میرِ شہر نے 
ساکنانِ شہر کے سینوں پہ پتھر رکھ دئیے 

Tuesday 26 September 2017

وارفتگی عشق نہ جائے تو کیا کریں

وارفتگیٔ عشق نہ جائے تو کیا کریں 
تیرا بھی اب خیال نہ آئے تو کیا کریں 
خود شرم عشق دل کو مٹائے تو کیا کریں 
ان تک نگاہِ شوق نہ جائے تو کیا کریں 
مۓ خواریاں گناہ سہی ساقیٔ ازل 
جب ابر جھوم جھوم کے آئے تو کیا کریں

کوئی معیار محبت نہ رہا میرے بعد

کوئی معیارِ محبت نہ رہا میرے بعد 
ہر طرف عام ہیں خاصانِ وفا میرے بعد 
سلسلہ ان کے ستم کا نہ رہا میرے بعد 
بدلا بدلا سا ہے دستورِ جفا میرے بعد 
کون پہنے گا گلے میں تِری الفت کی کمند 
کس کے سر ہو گی تِری زلفِ دوتا میرے بعد 

کچھ صلا ہی نہ ملا عشق میں جل جانے کا

کچھ صلہ ہی نہ ملا عشق میں جل جانے کا 
شمع نے لوٹ لیا سوز بھی پروانے کا 
میری بالیں پہ مرے واسطے رونے والے
اب نہ جینے ہی کا موقع ہے نہ مر جانے کا
ضبط فریاد کی بے سود توقع دل سے 
ظرف کیوں دیکھیے ٹوٹے ہوئے پیمانے کا 

عشق ستم پرست کیا حسن ستم شعار کیا

عشقِ ستم پرست کی،ا حسنِ ستم شعار کیا 
ہم بھی انہیں کے ہیں تو پھر اپنا بھی اعتبار کیا 
عشرتِ زیست کی قسم عشرتِ مستعار کیا 
غم بھی جو مستقل نہ ہو غم کا بھی اعتبار کیا 
مٹتی ہوئی حیات کیا، لٹتی ہوئی بہار کیا 
یعنی قریبِ صبحِ غم شمع کا اعتبار کیا 

شوق کو بے ادب کیا عشق کو حوصلہ دیا

شوق کو بے ادب کیا عشق کو حوصلہ دیا 
عذرِ نگاہِ دوست نے جرمِ نظر سکھا دیا 
ان کے تصورات سے عشق کا جگمگا دیا
آئی تھی شامِ غم مگر میں نے سحر بنا دیا
آہ وہ بد نصیب آہ نالۂ عندلیب آہ 
میرا فسانۂ الم جیسے مجھے سنا دیا 

Monday 25 September 2017

دیدنی ہے زخم دل اور آپ سے پردہ بھی کیا

دیدنی ہے زخم دل اور آپ سے پردا بھی کیا 
اک ذرا نزدیک آ کر دیکھیے ایسا بھی کیا 
ہم بھی ناواقف نہیں آدابِ محفل سے، مگر 
چیخ اٹھیں خاموشیاں تک ایسا سناٹا بھی کیا 
خود ہمِیں جب دستِ قاتل کو دعا دیتے رہے 
پھر کوئی اپنی ستم گاری پہ شرماتا بھی کیا 

چند الجھی ہوئی سانسوں کی عطا ہوں کیا ہوں

چند الجھی ہوئی سانسوں کی عطا ہوں کیا ہوں 
میں چراغِ تہِ دامانِ صبا ہوں، کیا ہوں 
ہر نفس ہے مرا پروردۂ آغوش بلا 
اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا ہوں کیا ہوں 
مجھ پہ کھلتا ہی نہیں میرا ستم دیدہ وجود 
کوئی پتھر ہوں کہ گم کردہ صدا ہوں کیا ہوں 

لب سکوت پہ اک حرف بے نوا بھی نہیں

لبِ سکوت پہ اک حرفِ بے نوا بھی نہیں 
وہ رات ہے کہ کسی کو سر دعا بھی نہیں 
خموش رہیۓ تو کیا کیا صدائیں آتی ہیں 
پکاریۓ تو کوئی مڑ کے دیکھتا بھی نہیں 
جو دیکھیۓ تو جلو میں ہیں مہر و ماہ و نجوم 
جو سوچیۓ تو سفر کی یہ ابتدا بھی نہیں 

دل شوریدہ کی وحشت نہیں دیکھی جاتی

دلِ شوریدہ کی وحشت نہیں دیکھی جاتی
روز اک سر پہ قیامت نہیں دیکھی جاتی
اب ان آنکھوں میں وہ اگلی سی ندامت بھی نہیں
اب دل زار کی حالت نہیں دیکھی جاتی
بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر
اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی

آج بھی دشت بلا میں نہر پر پہرا رہا

آج بھی دشتِ بلا میں نہر پر پہرا رہا 
کتنی صدیوں بعد میں آیا مگر پیاسا رہا 
کیا فضائے صبحِ خنداں کیا سواد شام غم 
جس طرف دیکھا کیا میں دیر تک ہنستا رہا 
اک سلگتا آشیاں اور بجلیوں کی انجمن 
پوچھتا کس سے کہ میرے گھر میں کیا تھا کیا رہا 

Sunday 24 September 2017

زہر کو مے نہ کہوں مے کو گوارا نہ کہوں

زہر کو مے نہ کہوں مے کو گوارا نہ کہوں 
روشنی مانگ کے میں خود کو ستارہ نہ کہوں 
اپنی پلکوں پہ لیے پھرتا ہوں چاہت کے سراب 
دل کے صحرا کو سمندر کا کنارہ نہ کہوں 
ہجر کے پھول میں وہ چہرۂ زریں دیکھوں 
وصل کے خواب کو ملنے کا اشارہ نہ کہوں 

پھول کی رنگت میں نے دیکھی درد کی رنگت دیکھے کون

پھول کی رنگت میں نے دیکھی درد کی رنگت دیکھے کون 
پیار کا گیت سنا ہے سب نے دھن تھی کیسی سوچے کون 
انگ انگ سے رنگ رنگ کے پھول برستے دیکھے کون 
رنگ رنگ سے شعلے برسے کیسے برسے سوچے کون 
دھوپ نے تن من پھونک دیا تو سائے میں آ بیٹھا تھا 
شاخ شاخ میں آگ چھپی ہے پیڑ کے نیچے بیٹھے کون 

میں یوں تو نہیں ہے کہ محبت میں نہیں تھا

میں یوں تو نہیں ہے کہ محبت میں نہیں تھا 
البتہ کبھی اتنی مصیبت میں نہیں تھا 
اسباب تو پیدا بھی ہوئے تھے مگر اب کے 
اس شوخ سے ملنا مِری قسمت میں نہیں تھا 
طے میں نے کیا دن کا سفر جس کی ہوس میں 
دیکھا تو وہی رات کی دعوت میں نہیں تھا 

کیا پتا کس جرم کی کس کو سزا دیتا ہوں میں

کیا پتا کس جرم کی کس کو سزا دیتا ہوں میں 
رنگ سا اک باندھتا ہوں، پھر بھلا دیتا ہوں میں 
اپنے آگے اب تو میں خود بھی ٹھہر سکتا نہیں 
سامنا ہوتے ہی چٹکی میں اڑا دیتا ہوں میں 
معجزہ اگلا تو اب شاید پرانا ہو چلا 
دیکھنا اب کے کوئی چکر نیا دیتا ہوں میں 

اور کیا میرے لئے عرصہ محشر ہو گا

اور کیا میرے لیے عرصۂ محشر ہو گا 
میں شجر ہوں گا تِرے ہاتھ میں پتھر ہو گا 
یوں بھی گزریں گی تِرے ہجر میں راتیں میری 
چاند بھی جیسے مِرے سینے میں خنجر ہو گا 
زندگی کیا ہے، کئی بار یہ سوچا میں نے 
خواب سے پہلے کسی خواب کا منظر ہو گا 

یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہو گیا

فلمی  گیت

یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہو گیا
پیار ہی میں کهو گیا
یہ زندگی اسی کی ہے

یہ بہار یہ سماں کہہ رہا ہے پیار کر
کسی کی آرزو میں اپنے دل کو بے قرار کر
زندگی ہے بے وفا، لوٹ پیار کا مزا
آ رہی ہے یہ صدا، مستیوں میں ڈوب جا
یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہو گیا
پیار ہی میں کهو گیا
یہ زندگی اسی کی ہے

جانا تھا ہم سے دور بہانے بنا لئے

فلمی گیت

جانا تھا ہم سے دور، بہانے بنا لیے
اب تم نے کتنی دور، ٹھکانے بنا لیے
جانا تھا ہم سے دور

رخصت کے وقت تم نے جو آنسو ہمیں دئیے
ان آنسوؤں سے ہم نے فسانے بنا لیے
اب تم نے کتنی دور، ٹھکانے بنا لیے
جانا تھا ہم سے دور

Friday 22 September 2017

رکھتے ہیں دشمنی بھی جتاتے ہیں پیار بھی

رکھتے ہیں دشمنی بھی جتاتے ہیں پیار بھی 
ہیں کیسے غم گسار مِرے غم گسار بھی 
افسردگی بھی رخ پہ ہے ان کے نکھار بھی 
ہے آج گلستاں میں خزاں بھی بہار بھی 
پیتا ہوں میں شرابِ محبت تو کیا ہوا 
پیتا ہے یہ شراب تو پروردگار بھی 

حاصل ہے تیرے عشق میں تسکیں جاں مجھے

حاصل ہے تیرے عشق میں تسکیںِ جاں مجھے
جس دن سے مل گیا ہے تِرا آستاں مجھے
جھک کر کرنے لگے آسماں سلام مجھے
پہنچا دیا ہے تِرے کرم نے کہاں مجھے
دامن نہ مجھ سے چھوٹے آپ کا کسی طرح
سرکار چاہے چھوڑ دے سارا جہاں مجھے

دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا

دستور محبت کا سکھایا نہیں جاتا 
یہ ایسا سبق ہے جو پڑھایا نہیں جاتا 
کمسن ہیں وہ ایسے انہیں ظالم کہوں کیسے 
معصوم پہ الزام لگایا نہیں جاتا 
آئینہ دکھایا تو کہا آئینہ رُخ نے 
آئینے کو آئینہ دکھایا نہیں جاتا 

یہ کہہ کے آگ وہ دل میں لگائے جاتے ہیں

یہ کہہ کے آگ وہ دل میں لگائے جاتے ہیں 
چراغ خود نہیں جلتے، جلائے جاتے ہیں 
اب اس سے بڑھ کے ستم دوستوں پہ کیا ہو گا 
وہ دشمنوں کو گلے سے لگائے جاتے ہیں 
غریبی جرم ہے ایسا کہ دیکھ کر مجھ کو 
نگاہیں پھیر کے اپنے پرائے جاتے ہیں 

Thursday 21 September 2017

اتنی آرائش محراب ہوئی ہے مجھ پر

اتنی آرائشِ محراب ہوئی ہے مجھ پر
خودبخود رونق مہتاب ہوئی ہے مجھ پر
سبزۂ زخم اچانک تو نہیں آ جاتا
یہ محبت ہے جو شاداب ہوئی ہے مجھ پر
کب مِرے ظاہر و باطن میں کوئی فرق پڑا
کیا نہیں کوششِ احباب ہوئی ہے مجھ پر

ہنر کے ساتھ یہ جادوگری ملی ہے مجھے

ہنر کے ساتھ یہ جادوگری ملی ہے مجھے 
چھڑی گھمائی تو نیلم پری ملی ہے مجھے
میں دل پہ زخم بناتا ہوں نوکِ خنجر سے
یہی اذیتِ شیشہ گری ملی ہے مجھے
سفر کے واسطے بیساکھیاں پڑی ہوئی تھیں 
سمجھ رہا تھا اڑن طشتری ملی ہے مجھے

وقت جب رنج خد و خال اٹھاتا ہے میاں

وقت جب رنجِ خد و خال اٹھاتا ہے میاں 
آئینہ دیر تلک اشک بہاتا ہے میاں 
تعزیہ کس نے نکالا ہے مِرے سینے سے 
اک عزادار بہت شور مچاتا ہے میاں 
چاہے اب کچھ نہیں برگد کی گھنی چھاؤں میں 
کم سے کم بوڑھا کہانی تو سناتا ہے میاں 

درون خواب بھی پانی کا ڈر جاگا ہوا ہے

درون خواب بھی پانی کا ڈر جاگا ہوا ہے 
کنارہ سو رہا ہے اور بھنور جاگا ہوا ہے
سر بستر میں اپنی نیند پوری کر رہا ہوں 
برابر میں مِرا سارا سفر جاگا ہوا ہے
تِری یادیں بدن کو خوب صورت کر رہی ہیں 
پرندوں کے چہکنے سے شجر جاگا ہوا ہے

Wednesday 20 September 2017

گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے

گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے 
پرندہ بھی شکاری کی سپاری لے کے نکلا ہے 
نکلنے والا یہ کیسی سواری لے کے نکلا ہے 
مداری جیسے سانپوں کی پٹاری لے کے نکلا ہے 
بہر قیمت وفاداری ہی ساری لے کے نکلا ہے 
ہتھیلی پر اگر وہ جان پیاری لے کے نکلا ہے 

بکتی نہیں فقیر کی جھولی ہی کیوں نہ ہو

بکتی نہیں فقیر کی جھولی ہی کیوں نہ ہو 
چاہے رئیس شہر کی بولی ہی کیوں نہ ہو 
احسان رنگ غیر اٹھاتے نہیں کبھی 
اپنے لہو سے کھیل وہ ہولی ہی کیوں نہ ہو 
سچ تو یہ ہے کہ ہاتھ نہ آنا کمال ہے 
دنیا سے کھیل آنکھ مچولی ہی کیوں نہ ہو 

ہر چند تری راہ میں میں خاک بسر ہوں

ہر چند تری راہ میں، میں خاک بسر ہوں
اٹھ جاؤں گا چپکے سے اگر بارِ نظر ہوں
چسکا وہ سفر کا ہے کہ رکنے نہیں دیتا
اک عزمِ سفر عزمِ سفر عزمِ سفر ہوں
بن باس میں پس منظر و منظر سے گزر کر
یاروں کو خبر کرنا کہ میں بارِ دگر ہوں

اب اس سے پہلے کہ تن من لہو لہو ہو جائے

اب اس سے پہلے کہ تن من لہو لہو ہو جائے
لہو سے قبل شہادت چلو وضو ہو جائے
قریب دیدہ و دل اس قدر جو تو ہو جائے
تو کیا عجب تِری تعریف میں غلو ہو جائے
بھلے ہی ہوتی ہے دنیا تمام، ہو جائے
خدانخواستہ میرے خلاف تو ہو جائے

دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم

دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم
کوفے کا حال دیکھ رہے ہیں جہاں سے ہم
رکھا ہے بے نیاز اسی بے نیاز نے
وابستہ ہی نہیں ہیں کسی آستاں سے ہم
رکھتا نہیں ہے کوئی ’شہادت‘ کا حوصلہ
اس کے خلاف لائیں گواہی کہاں سے ہم

پہاڑ کاٹتے ہیں جوے شیر کھینچتے ہیں

پہاڑ کاٹتے ہیں، جوئے شیر کھینچتے ہیں
زمینِ خاک پہ ہم بھی لکیر کھینچتے ہیں
بس ایک لذتِ بے نام کے ستائے ہوئے
عذابِ دربدری راہگیر کھینچتے ہیں
زیادہ دیر ہواؤں میں رہ نہیں سکتے
ہمیں مکانِ ازل کے اسیر کھینچتے ہیں

اب کس سے کہیں بھول گئے ہیں نگر اپنا

اب کس سے کہیں بھول گئے ہیں نگر اپنا
جنگل کے اندھیروں میں کٹا ہے سفر اپنا
بدلیں جو ہوائیں تو پلٹ کر وہیں آئے
ڈھونڈا انہی شاخوں میں پرندوں نے گھر اپنا
پھولوں سے بھرے کنج تو اک خواب ہی ٹھہرے
یہ سایۂ دیوارِ خزاں ہے مگر اپنا

کوئی نشاں سر دیوار و بام اپنا نہیں

کوئی نشاں سرِ دیوار و بام اپنا نہیں
کسی نگر، کسی بن میں قیام اپنا نہیں
ہوا کے ساتھ ہوا، بارشوں میں بارش ہیں
کسی شجر کسی پتے پہ نام اپنا نہیں
تلاش دل کو بیابانِ شامِ ہجراں کی
کہ ان ہواؤں میں خواب و خرام اپنا نہیں

مخمور چشم یار نے ایسا کیا مجھے

مخمور چشمِ یار نے ایسا کِیا مجھے
ساقی شراب چھوڑ کے دیکھا کیا مجھے
تجھ کو تو اپنی ساکھ ہے اے چارہ گر عزیز
تُو نے مِرے لیے نہیں اچھا کیا مجھے
کیا کیا دکھائے رنگ مجھے تیرے ہجر نے
دریا بنا دیا، کبھی صحرا کیا مجھے

سوئے بہت مگر کسی بیمار کی طرح

سوئے بہت مگر کسی بیمار کی طرح
آرام بھی مِلا ہمیں آزار کی طرح
کچھ ایسی پختہ ہو گئی دل توڑنے کی خُو
اقرار کر رہے ہیں وہ اِنکار کی طرح
بیکار سمجھے جاتے ہیں فن کار اس لیے
دن رات کام کرتے ہیں بیگار کی طرح

ہم کہ جو ہر ابر کو ابر کرم سمجھا کیے

ہم کہ جو ہر ابر کو ابرِ کرم سمجھا کیے
آ گئے اس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے
اُس نے اپنے منہ پہ انگلی رکھ کے آنکھیں بند کیں
میں نے کچھ کہنے کو اپنے ہونٹ جونہی وا کیے
روز لگ جاتے ہیں اس کے صحن میں کاغذ کے ڈھیر
مستعد خط لکھنے والوں سے زیادہ ڈاکیے

Monday 18 September 2017

مے نور خدا ہوتی دل عرش خدا ہوتا

مۓ نورِ خدا ہوتی دل عرشِ خدا ہوتا
تھوڑی سی جو پی لیتے کیا جانیے کیا ہوتا
ہم جا کے جو بھولے سے مسجد میں اذاں کہتے
بے دست برہمن بھی ناقوس بجا ہوتا
دن ہے یہ قیامت کا ہم ہجر کے مارے ہیں
افسانہ ہمارا بھی تھوڑا سا سنا ہوتا

ساغر چڑھائے پھول کے ہر شاخسار نے

ساغر چڑھائے پھول کے ہر شاخسار نے
دریا بہا دیئے خُمِ ابر بہار نے
روشن کئے چراغِ لحد لالہ زار نے
اس مرتبہ تو آگ لگا دی بہار نے
اودی گھٹائیں چھائی ہیں اے مۓ کشو چلو
پریوں کے تخت روک لیے سبزہ زار نے

ہم بھی پئیں تمہیں بھی پلائیں تمام رات

ہم بھی پئیں تمہیں بھی پلائیں تمام رات
جاگیں تمام رات،۔ جگائیں تمام رات
زاہد جو اپنے روزے سے تھوڑا ثواب دے
مۓ کش اسے شراب پلائیں تمام رات
تا صبح میکدے سے رہی بوتلوں کی مانگ
برسیں کہاں یہ کالی گھٹائیں تمام رات

کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہو گا

کل قیامت ہے قیامت کے سوا کیا ہو گا
اے میں قربان وفا وعدۂ فردا ہو گا
حشر کے روز بھی کیا خون تمنا ہو گا
سامنے آئیں گے یا آج بھی پردا ہو گا
تُو بتا دے ہمیں صدقے ترے اے شانِ کرم
ہم گنہ گار ہیں کیا حشر ہمارا ہو گا

Thursday 14 September 2017

رئیس اشکوں سے دامن کو بھگو لیتے تو اچھا تھا

رئیس اشکوں سے دامن کو بھگو لیتے تو اچھا تھا
حضورِ دوست کچھ گستاخ ہو لیتے تو اچھا تھا
جدائی میں یہ شرطِ ضبطِ غم تو مار ڈالے گی
ہم ان کے سامنے کچھ دیر رو لیتے تو اچھا تھا
بہاروں سے نہیں جن کو توقع لالہ و گل کی
وہ اپنے واسطے کانٹے ہی بو لیتے تو اچھا تھا

دیار شاہد بلقیس ادا سے آیا ہوں

دیار شاہد بلقیس ادا سے آیا ہوں 
میں اک فقیر ہوں شہرِ سبا سے آیا ہوں 
جہانِ نو کی طلب اور اس خرابے میں 
سوادِ اصطخر و نینوا سے آیا ہوں 
شبِ سیاہ خزاں کے سموم و صرصر تک 
نگار خانۂ صبح و صبا سے آیا ہوں 

Saturday 9 September 2017

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
ملا وہ غم کدہ جس میں چراغ بھی نہ ملا
گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بُو 
پھِری تو بادِ صبا کا دماغ بھی نہ ملا
چراغ لے کے ارادہ تھا یار کو ڈھونڈیں 
شبِ فراق تھی کوئی چراغ بھی نہ ملا

مست ہیں ہم خراب حالی میں

مست ہیں ہم خراب حالی میں
خوش ہیں رندان لا ابالی میں
رشکِ یوسفؑ ہیں خوش جمالی میں
شہرہ ان کا ہے بے مثالی میں
ٹھوکریں ان کی کھائے جا اے دل
سرفرازی ہے پائمالی میں

Friday 8 September 2017

آ گئے سب دیکھنے طوفانی منظر کو ادھر سے

آ گئے سب دیکھنے طوفانی منظر کو ادھر سے
میں نے اک پتھر ہی مارا تھا سمندر کو ادھر سے
تم تو ناموجود کی خواہش میں مرتے جا رہے ہو 
میں نے ہاتھوں سے لٹایا ہے میسر کو ادھر سے
آنکھ بھی مطلب پرستی پر اتر آئی ہے شاید 
کھینچتا رہتا دل بھی اپنے بہتر کو ادھر سے

دوست نے آتے ہی یہ اسباب آگے رکھ دیا

دوست نے آتے ہی یہ اسباب آگے رکھ دیا 
ناؤ سے اترا تو اک گرداب آگے رکھ دیا
آنکھ اس نے مانگنا چاہی تو میں نے پیش کی
خواب کا پوچھا تو میں نے خواب آگے رکھ دیا
وہ پرندے بھی کئی صدیوں کے پیاسے آئے تھے 
میں نے بھی اشکوں بھرا تالاب آگے رکھ دیا

یہ فیصلہ بھی کیا بددعا سمیت میاں

یہ فیصلہ بھی کیا بد دعا سمیت میاں 
چراغ گھر سے نکالا ہوا سمیت میاں
یہ قرض عشق ہے پھر بھی ادا نہیں ہو گا 
بدن ادھیڑ بھی لوں گر قبا سمیت میاں
میں جب بھی قبر میں ماں کو صدائیں دیتا ہوں 
وہ اٹھ کے آتی ہے باہر دعا سمیت میاں

Wednesday 6 September 2017

پھول روتے ہیں کہ آئی نہ صدا تیرے بعد

بحضور قائد اعظم

پھول روتے ہیں کہ آئی نہ صدا تیرے بعد
غرقۂ خوں ہے بہاروں کی ردا تیرے بعد
آندھیاں خاک ا ڑاتی ہیں سرِ صحنِ چمن
لالہ و گل ہوئے شاخوں سے جدا تیرے بعد
جاہ و منصب کے طلبگاروں نے یوں ہاتھ بڑھائے
کوئی دامن بھی سلامت نہ رہا تیرے بعد

مرا بدن لہو لہو مرا وطن لہو لہو

ترانہ​
مِرا بدن لہو لہو
مِرا وطن لہو لہو
مگر عظیم تر
یہ میری ارضِ پاک ہو گئی
اسی لہو سے
سرخرو

آج اغیار کے تیروں سے بدن پر میرے

دیکھنا یہ ہے​
آج اغیار کے تیروں سے بدن پر میرے
پھر وہی زخم چمکتے ہیں ستاروں کی طرح
پھر اسی دشمنِ جاں دشمنِ دیں کے ہاتھوں
میرا ملبوس ہے گل رنگ بہاروں کی طرح
پھر مرے دیس کی مٹی سے لہو رِستا ہے
پھر در و بام ہوئے سینہ فگاروں کی طرح

یہ مملکت تو سبھی کی ہے خواب سب کا ہے

سبھی شریکِ سفر ہیں​
یہ مملکت تو سبھی کی ہے خواب سب کا ہے
یہاں پہ قافلۂ رنگ و بو اگر ٹھہرے
تو حُسنِ خیمۂ برگ و گلاب سب کا ہے
یہاں خزاں کے بگولے اٹھیں تو ہم نفسو!
چراغ سب کے بجھیں گے عذاب سب کا ہے

دائم آباد تیری حسیں انجمن اے وطن اے وطن

ترانہ

دائم آباد تیری حسیں انجمن
اے وطن، اے وطن
تیرے کھیتوں کا سونا سلامت رہے
تیرے شہروں کا سکھ تا قیامت رہے
تاقیامت رہے یہ بہارِ چمن
اے وطن، اے وطن

لہو لہان مرے شہر میرے یار شہید

میں کیوں اداس ہوں​
لہو لہان مرے شہر میرے یار شہید
مگر یہ کیا کہ مری آنکھ ڈبڈبائی نہیں
نظر کے زخم جگر تک پہنچ نہیں پائے
کہ مجھ کو منزلِ اظہار تک رسائی نہیں
میں کیا کہو کہ پشاور سے چاٹگام تلک
مرے دیار نہیں تھے کہ میرے بھائی نہیں

کب یاروں کو تسلیم نہیں کب کوئی عدو انکاری ہے

ترانہ

کب یاروں کو تسلیم نہیں کب کوئی عدو انکاری ہے
اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے
جب سازِ سلاسل بجتے تھے ہم اپنے لہو میں سجتے تھے
وہ رِیت ابھی تک باقی ہے یہ رسم ابھی تک جاری ہے
کچھ اہلِ ستم کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے

اے مرے شہر میں تجھ سے نادم ہوں

اے مِرے شہر
مِرے شہر
میں تجھ سے نادم ہوں
اس خامشی کے لئے
جب عدو تیری خوابیدہ گلیوں پہ
بھیگی ہوئی رات میں

Monday 4 September 2017

اب کون کہے تم سے

اب کون کہے تم سے
مجھے یاد نہیں کرنا
مجبور نہیں ہونا

اب کون کہے تم سے
وحدت کو سمجھ کر بھی
منصور نہیں ہونا

آج ضبط رویا ہے

آج ضبط رویا ہے
عشق کے جزیرے میں
بے پناہ محبت کا
ایک ہی گھروندہ تھا
ایک ہی ٹھکانا تھا
بے پناہ چاہت کا

کون سنے گا کوک ری کوئل

کون سنے گا کوک ری کوئل 
چپ ہو جا مت ہُوک ری کوئل
لوگ کریں ہم معصوموں سے 
کتنا سخت سلوک ری کوئل
اس کی خاطر کر چھوڑی ہے 
دنیا بھی متروک ری کوئل

بدن موجود ہو گا اور قبا موجود ہو گی

بدن موجود ہو گا اور قبا موجود ہو گی 
وہ جب بھی دل ٹٹولے گا انا موجود ہو گی
اسے انکار ہے تو فیصلہ ہوگا ہمارا 
کل ان سڑکوں پہ جب خلق خدا موجود ہو گی
ہمارے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے 
مگر ان خالی ہاتھوں میں دعا موجود ہو گی

لہو سمیت غم جاوداں نکالتا ہوں

لہو سمیت غمِ جاوداں نکالتا ہوں 
میں خود کو مار کے ہی اپنی جاں نکالتا ہوں
فقط دعا ہی مصیبت کو ٹال سکتی ہے 
ہوا چلے تو یہی بادباں نکالتا ہوں
کنویں کی تہہ سے تو پانی نکالا جاتا ہے 
مگر میں پانی کی تہہ سے کنواں نکالتا ہوں

سفینہ جس طرح گرداب سے نکالا گیا

سفینہ جس طرح گرداب سے نکالا گیا 
مجھے بھی حلقۂ احباب سے نکالا گیا
کرن کرن بھی نچوڑی گئی ہے رگ رگ سے 
چراغ بھی دلِ بے تاب سے نکالا گیا
میں آ کے بیٹھ گیا ریت کی چٹائی پر 
جب اس کے دیدۂ شاداب سے نکالا گیا

جب سے آیا چاند اپنے سامنے

جب سے آیا چاند اپنے سامنے
ہم کو پاگل کر دیا ہے شام نے
اب سہار ے کی نہیں حاجت کوئی
کیوں لگے ہیں آپ ہم کو تھامنے
بے سکونی اور وحشت کے سوا
کیا دیا ہے پیار کے الزام نے

جو مہک رات کی رانی کی ہے

جو مہک رات کی رانی کی ہے
غالباً تیری جوانی کی ہے
گو جسے بادِ صبا کہتے ہیں
لہر وہ میری کہانی کی ہے
تجربہ تم کو کہاں ہجرت کا
تم نے تو نقل مکانی کی ہے

سچی باتیں کڑوی باتیں ہوتی ہیں

سچی باتیں کڑوی باتیں ہوتی ہیں
لیکن کہنے والی باتیں ہوتی ہیں
میں سنتا رہتا ہوں اور خوش ہوتا ہوں
ہر محفل میں اس کی باتیں ہوتی ہیں
ورنہ میں خاموش ہی رہتا ہوں اکثر
ہوتی ہیں تو کتنی باتیں ہوتی ہیں

یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہو گا

یہ اور بات کہ رنگِ بہار کم ہو گا 
نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہو گا
تعلقات میں آئی ہے بس یہ تبدیلی 
ملیں گے اب بھی مگر انتظار کم ہو گا
میں سوچتا رہا کل رات بیٹھ کر تنہا 
کہ اس ہجوم میں میرا شمار کم ہو گا

Friday 1 September 2017

خوشیاں بھاری ہوتی ہیں

خوشیاں بھاری ہوتی ہیں

چار جوڑے کپڑوں کے
چار جوڑے جوتوں کے
تھوڑی چینی تھیلی میں
ایک پیکٹ کھیر کا
ایک ڈبہ دودھ کا
دس یا بیس والی ہو 

دیس پردیس میں رلتے ہوئے گڑیاؤں کے بابا جانی

دیس پردیس میں رلتے ہوئے گڑیاؤں کے بابا جانی
ہاتھ پتھر کے ہوئے ایسے، جگہ باقی نہیں چھالوں کو
نیند کے نام پہ کچھ کروٹیں لے پاتے ہیں
کتنا ہنستے ہیں یہ باسی لطیفے سن کر
وقت بے وقت نمی رہتی ہے کیوں آنکھوں میں
میلا بستر ہو یا بِکھرا ہوا کمرہ ہو 

انہیں ہو گی بھلا کیا جو، ہمیں نخروں کی عادت ہے

انہیں ہو گی بھلا کیا جو، ہمیں نخروں کی عادت ہے
وہ کہتے ہیں اگر کل تو، ہمیں پرسوں کی عادت ہے
سنا ہے وقت مرہم ہے، جو بھر دیتا ہے زخموں کو
تو کیا ہو گا ہمارا پھر، ہمیں زخموں کی عادت ہے
سنو ہمدم! یہ منزل ہے، مبارک ہو تمہیں منزل
ہمیں جانا ہے واپس پھر ہمیں رستوں کی عادت ہے

خودی کے راز کو میں نے بروز عید پایا جی

بقر عید شاعری

خودی کے راز کو میں نے بروزِ عید پایا جی
کہ جب میں نے کلیجی کو کلیجے سے لگایا جی
جو حصہ گائے سےآیا،۔ اسے تقسیم کر ڈالا
جو بکرا میرے گھر میں تھا اسے میں نے چھپایا جی
فریج میں برف کا خانہ نہ ہوتا گر تو کیا ہوتا
دعائیں اس کو دیتا ہوں کہ جس نے یہ بنایا جی