Friday 29 September 2017

کیوں نہ مجھ کو جان سے پیارے ہوں زخموں کے چراغ

کیوں نہ مجھ کو جان سے پیارے ہوں زخموں کے چراغ
یہ نشانی کی نشانی ہیں، چراغوں کے چراغ
قصرِ شاہی میں بپا تھا جشنِ مرگِ روشنی
آندھیاں جب چاٹتی پھرتی تھیں خیموں کے چراغ
شوق جلنے کا ہمیں، ارباب کو بجھنے کا ڈر
ہم منڈیروں کے دیئے وہ بند کمروں کے چراغ
دورِ آئندہ میں پھر پلٹے گی تہذیب کہن
اگلے وقتوں میں جلیں گے پچھلے وقتوں کے چراغ
کرتے ہیں ہر شام استقبال تیری یاد کا
میری پلکوں کی منڈیروں پر یہ اشکوں کے چراغ
کھا گئیں کتنے جوانوں کو پرانی رنجشیں
جل بجھے ان آندھیوں میں کتنی نسلوں کے چراغ
خون روتا ہوں جو یاد آتے ہیں یارانِ حسِیں
میری صبحوں کے وہ سورج میری راتوں کے چراغ
موسمِ گل کی اتاری جا رہی تھی آرتی
ٹہنی ٹہنی نے اٹھا رکھے تھے پھولوں کے چراغ
نیند کی نگری میں ہوتا ہے چراغاں کا سماں
جگمگا اٹھتے ہیں جب بھی تیرے خوابوں کے چراغ
دہر میں ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں بے فیض لوگ
جیسے غاروں کے خزانے، جیسے قبروں کے چراغ
مفلسی تنہا بنا دیتی ہے نازؔ انسان کو
بھوک کی آندھی بجھا دیتی ہے رشتوں کے چراغ

ناز خیالوی

No comments:

Post a Comment