Tuesday 26 September 2017

عشق ستم پرست کیا حسن ستم شعار کیا

عشقِ ستم پرست کی،ا حسنِ ستم شعار کیا 
ہم بھی انہیں کے ہیں تو پھر اپنا بھی اعتبار کیا 
عشرتِ زیست کی قسم عشرتِ مستعار کیا 
غم بھی جو مستقل نہ ہو غم کا بھی اعتبار کیا 
مٹتی ہوئی حیات کیا، لٹتی ہوئی بہار کیا 
یعنی قریبِ صبحِ غم شمع کا اعتبار کیا 
یاد سے ان کی کام رکھ، درد کا اہتمام رکھ 
موت بھی آ ہی جائے گی موت کا انتظار کیا 
بڑھتی رہیں گی تا بہ کے اہلِ جنوں کی وحشتیں 
چھپتے رہیں گے وہ پس آئینۂ بہار کیا 
قیمت کائنات کیا ان کی نگاہ ناز میں 
فتنۂ حشر کے لیے فتنۂ روزگار کیا 
اتنا بھی انتظار دوست ہائے یہ اعتبار دوست 
اے دل بے قرار دوست دوست پہ اختیار کیا 
عشق سے سرگراں نہ ہو حسن سے بد گماں نہ ہو 
جس کے لیے خزاں نہ ہو اس کے لیے بہار کیا 
یاد میں تیری پا لیا میں نے سکون زندگی 
اب تری یاد میں مجھے چین کیا قرار کیا 
میری نظر سے دیکھیے اپنا جمال بے مثال 
چشم بہار ساز میں آئینۂ بہار کیا 
میری وفا وفا نہیں ان کی جفا جفا نہیں 
ہائے اسی کا نام ہے عالم اعتبار کیا 
باسطؔ فگار کی یاد بھی کیا نہ آئے گی 
اب نہ سنیں گے ہم وطن نالۂ بے قرار کیا 

باسط بھوپالی

No comments:

Post a Comment