پہاڑ کاٹتے ہیں، جوئے شیر کھینچتے ہیں
زمینِ خاک پہ ہم بھی لکیر کھینچتے ہیں
بس ایک لذتِ بے نام کے ستائے ہوئے
عذابِ دربدری راہگیر کھینچتے ہیں
زیادہ دیر ہواؤں میں رہ نہیں سکتے
پلک جھپک نہ سکی کارزارِ ہستی میں
کماندار اشارے پہ تیر کھینچتے ہیں
بس ایک اس کا ہی چہرہ نہ بن سکا ثروت
وگرنہ عکس تو ہم دلپذیر کھینچتے ہیں
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment