Wednesday 20 September 2017

ہر چند تری راہ میں میں خاک بسر ہوں

ہر چند تری راہ میں، میں خاک بسر ہوں
اٹھ جاؤں گا چپکے سے اگر بارِ نظر ہوں
چسکا وہ سفر کا ہے کہ رکنے نہیں دیتا
اک عزمِ سفر عزمِ سفر عزمِ سفر ہوں
بن باس میں پس منظر و منظر سے گزر کر
یاروں کو خبر کرنا کہ میں بارِ دگر ہوں
پانا ہو اگر خود کو تو اترو مِرے اندر
مٹی سے اٹھایا ہوا میں آئینہ گر ہوں
تُو آنکھ جھکا لے تو تِری ناک کے نیچے
تُو آنکھ اٹھائے تو میں تا حدِ نظر ہوں
مقتول نہیں ہوں مِرے قاتل سے یہ کہنا
وہ خیر منائے کہ میں آمادۂ شر ہوں
تم لوگ مجھے کیا نظر انداز کرو گے
منوا کے رہوں گا میں بہرحال اگر ہوں
ناسخ سے مجھے کد ہے نہ آتش سے محبت
میں خیرؔ  کا طالب ہوں اِدھر ہوں نہ اُدھر ہوں

رؤف خیر

No comments:

Post a Comment