دیار شاہد بلقیس ادا سے آیا ہوں
میں اک فقیر ہوں شہرِ سبا سے آیا ہوں
جہانِ نو کی طلب اور اس خرابے میں
سوادِ اصطخر و نینوا سے آیا ہوں
شبِ سیاہ خزاں کے سموم و صرصر تک
ابھی کہاں ہے مجھے نوحہ و نوا کا شعور
کہ ایک ناحیۂ بے نوا سے آیا ہوں
مِرے رموز کا عرفاں کسے نصیب کہ میں
سروشِ روحِ ازل ہوں، سما سے آیا ہوں
دمک رہی ہے زمان و مکاں کی پیشانی
ستارۂ ابدی ہوں،۔ خلا سے آیا ہوں
تمہارے غنچہ و گل سے غرض نہیں مجھ کو
ادھر اشارۂ بادِ صبا سے آیا ہوں
رئیس امروہوی
No comments:
Post a Comment