Thursday, 14 September 2017

دیار شاہد بلقیس ادا سے آیا ہوں

دیار شاہد بلقیس ادا سے آیا ہوں 
میں اک فقیر ہوں شہرِ سبا سے آیا ہوں 
جہانِ نو کی طلب اور اس خرابے میں 
سوادِ اصطخر و نینوا سے آیا ہوں 
شبِ سیاہ خزاں کے سموم و صرصر تک 
نگار خانۂ صبح و صبا سے آیا ہوں 
ابھی کہاں ہے مجھے نوحہ‌ و نوا کا شعور 
کہ ایک ناحیۂ بے نوا سے آیا ہوں 
مِرے رموز کا عرفاں کسے نصیب کہ میں 
سروشِ روحِ ازل ہوں، سما سے آیا ہوں 
دمک رہی ہے زمان و مکاں کی پیشانی 
ستارۂ ابدی ہوں،۔ خلا سے آیا ہوں 
تمہارے غنچہ و گل سے غرض نہیں مجھ کو 
ادھر اشارۂ بادِ صبا سے آیا ہوں

رئیس امروہوی

No comments:

Post a Comment