Saturday 9 September 2017

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
ملا وہ غم کدہ جس میں چراغ بھی نہ ملا
گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بُو 
پھِری تو بادِ صبا کا دماغ بھی نہ ملا
چراغ لے کے ارادہ تھا یار کو ڈھونڈیں 
شبِ فراق تھی کوئی چراغ بھی نہ ملا
خبر کو یار کی بھیجا تھا، گم ہوئے ایسے 
حواسِ رفتہ کا اب تک سراغ بھی نہ ملا
جلالؔ باغِ جہاں میں وہ عندلیب ہیں ہم 
چمن کو پھول ملے، ہم کو داغ بھی نہ ملا

جلال لکھنوی

No comments:

Post a Comment