سرِ میدانِ کربل لاشۂ شبیر کے ٹکڑے
جو دیکھے تو ہوئے کیا کیا دلِ ہمشیر کے ٹکڑے
رلایا ہے لہو مختار نے مجبور کو اکثر
کیے ہیں بارہا تقدیر نے تدبیر کے ٹکڑے
وہاں ملتی نہیں اب نام کو بھی کوئی رنگینی
ذرا کچھ زلزلہ آیا غمِ حالات کا دل میں
ہوۓ دیوار سے گِر کر تِری تصویر کے ٹکڑے
کیے ہیں کتنی بیدردی سے کچھ سفاک لوگوں نے
قلندر کے مقدس خواب کی تعبیر کے ٹکڑے
ناز خیالوی
No comments:
Post a Comment