دیس پردیس میں رلتے ہوئے گڑیاؤں کے بابا جانی
ہاتھ پتھر کے ہوئے ایسے، جگہ باقی نہیں چھالوں کو
نیند کے نام پہ کچھ کروٹیں لے پاتے ہیں
کتنا ہنستے ہیں یہ باسی لطیفے سن کر
وقت بے وقت نمی رہتی ہے کیوں آنکھوں میں
ان کو دِکھتا ہی نہیں پاس کا منظر کوئی
بات بیٹی سے ہو، بیٹے سے ہو یا بیوی سے
حال ماں پوچھے یا باپ کا فون آئے کبھی
ایسے بنتے ہیں کہ جنت میں ہو جیسے کوئی
ایک ہی فکر کے گھر والے سبھی
عید کا چاند خوشی سے دیکھیں
راحتیں گھیر کے لے آتے ہیں لیکن عابی
کتنا رلتے ہیں یہ گڑیاؤں کے بابا جانی
چاند رو پڑتا ہے جب عید کہیں ہوتی ہے
ان کا دکھ بانٹنے چلتی ہیں ہوائیں نم نم
آسماں پیار سے برساتا ہے ٹھنڈی شبنم
نظم شاعر پہ اترتی ہے دلاسہ بن کر
وقت کٹ جائے گا تم لوٹ کے پھر آؤ گے
ہاں یہاں ٹھیک ہے سب، حوصلہ رکھنا قائم
عمر اک اور بھی دی جائے گی، پھر جی لینا
آنکھ بھر آئے تو پھر آنکھ چرانا بہتر
اپنے ناسور کو دنیا سے چھپانا بہتر
عابی مکھنوی
No comments:
Post a Comment