Sunday 24 September 2017

زہر کو مے نہ کہوں مے کو گوارا نہ کہوں

زہر کو مے نہ کہوں مے کو گوارا نہ کہوں 
روشنی مانگ کے میں خود کو ستارہ نہ کہوں 
اپنی پلکوں پہ لیے پھرتا ہوں چاہت کے سراب 
دل کے صحرا کو سمندر کا کنارہ نہ کہوں 
ہجر کے پھول میں وہ چہرۂ زریں دیکھوں 
وصل کے خواب کو ملنے کا اشارہ نہ کہوں 
مرتے مرتے بھی یہ تحریر امانت میری 
موت کے بعد بھی جینے کو خسارہ نہ کہوں 
اپنی تکمیل کے ہر نقش میں دیکھوں اس کو 
عرصۂ دہر کو حسرت کا نظارہ نہ کہوں 
حشر سے پہلے مرے حشر کی تصویر نہ بن 
حرفِ آخر کو کسی طور دوبارہ نہ کہوں 
زندگی جس کی مرے دم سے عبارت ہو ظفرؔ 
کیوں کہے کوئی اسے جان سے پیارا نہ کہوں

احمد ظفر

No comments:

Post a Comment