دوست نے آتے ہی یہ اسباب آگے رکھ دیا
ناؤ سے اترا تو اک گرداب آگے رکھ دیا
آنکھ اس نے مانگنا چاہی تو میں نے پیش کی
خواب کا پوچھا تو میں نے خواب آگے رکھ دیا
وہ پرندے بھی کئی صدیوں کے پیاسے آئے تھے
پاؤں رکھنے جا رہا تھا وہ تو دن کی اینٹ پر
رات نے لیکن گلِ مہتاب آگے رکھ دیا
میں نے اپنی بادشاہی اس طرح تقسیم کی
جس نے بھی مانگا پرِ سرخاب آگے رکھ دیا
صرف اک بوسہ دیا تھا میں نے اس کے گال پر
سرکشی نے سارا پیچ و تاب آگے رکھ دیا
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment