Friday, 8 September 2017

دوست نے آتے ہی یہ اسباب آگے رکھ دیا

دوست نے آتے ہی یہ اسباب آگے رکھ دیا 
ناؤ سے اترا تو اک گرداب آگے رکھ دیا
آنکھ اس نے مانگنا چاہی تو میں نے پیش کی
خواب کا پوچھا تو میں نے خواب آگے رکھ دیا
وہ پرندے بھی کئی صدیوں کے پیاسے آئے تھے 
میں نے بھی اشکوں بھرا تالاب آگے رکھ دیا
پاؤں رکھنے جا رہا تھا وہ تو دن کی اینٹ پر 
رات نے لیکن گلِ مہتاب آگے رکھ دیا
میں نے اپنی بادشاہی اس طرح تقسیم کی 
جس نے بھی مانگا پرِ سرخاب آگے رکھ دیا
صرف اک بوسہ دیا تھا میں نے اس کے گال پر 
سرکشی نے سارا پیچ و تاب آگے رکھ دیا

عاطف کمال رانا

No comments:

Post a Comment