Thursday 28 September 2017

نظر آتا ہے وہ جیسا نہیں ہے

نظر آتا ہے وہ جیسا نہیں ہے 
جو کہتے ہو مگر ویسا نہیں ہے 
نہیں ہوتا ہے کیا کیا اس جہاں میں 
وہی جو چاہیۓ، ہوتا نہیں ہے 
بھرا ہے شہر فرعونوں سے اپنا 
کوئی ہوتا جو اک موسیٰ نہیں ہے 
چلو اک اور کوشش کر کے دیکھیں 
یونہی گھٹ گھٹ کے مر جانا نہیں ہے 
نہیں ہے خواب دیوانے کا ہستی 
یہ دنیا صرف اک دھوکا نہیں ہے 
نہایت تلخ ہے، سنگین سچ ہے 
حقیقت اپنی افسانہ نہیں ہے 
نمک اشکوں کا دل کو لگ گیا ہے 
یہاں اب کچھ کہیں اگتا نہیں ہے 
جو کرنا چاہیۓ، وہ ہی کیا ہے 
ملے گا اجر کیا سوچا نہیں ہے 
سنائے جا رہے ہیں اپنی اپنی 
اجی سنیۓ مجھے سننا نہیں ہے 
ہمیں چھیڑے نہیں بلقیسؔ کوئی 
ہمارا آج جی اچھا نہیں ہے 

بلقیس ظفیرالحسن

No comments:

Post a Comment