آ گئے سب دیکھنے طوفانی منظر کو ادھر سے
میں نے اک پتھر ہی مارا تھا سمندر کو ادھر سے
تم تو ناموجود کی خواہش میں مرتے جا رہے ہو
میں نے ہاتھوں سے لٹایا ہے میسر کو ادھر سے
آنکھ بھی مطلب پرستی پر اتر آئی ہے شاید
وہ بھی کہسارِ انا سے آبگینہ ہو رہا ہے
میں بھی ریشم کر رہا ہوں اپنے پتھر کو ادھر سے
اس طرف سے تو پیامِ یار آنا چاہتا ہے
چھوڑتا میں ہی نہیں عاطف کبوتر کو ادھر سے
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment