Friday, 8 September 2017

آ گئے سب دیکھنے طوفانی منظر کو ادھر سے

آ گئے سب دیکھنے طوفانی منظر کو ادھر سے
میں نے اک پتھر ہی مارا تھا سمندر کو ادھر سے
تم تو ناموجود کی خواہش میں مرتے جا رہے ہو 
میں نے ہاتھوں سے لٹایا ہے میسر کو ادھر سے
آنکھ بھی مطلب پرستی پر اتر آئی ہے شاید 
کھینچتا رہتا دل بھی اپنے بہتر کو ادھر سے
وہ بھی کہسارِ انا سے آبگینہ ہو رہا ہے
میں بھی ریشم کر رہا ہوں اپنے پتھر کو ادھر سے
اس طرف سے تو پیامِ یار آنا چاہتا ہے
چھوڑتا میں ہی نہیں عاطف کبوتر کو ادھر سے

عاطف کمال رانا

No comments:

Post a Comment