ہنر کے ساتھ یہ جادوگری ملی ہے مجھے
چھڑی گھمائی تو نیلم پری ملی ہے مجھے
میں دل پہ زخم بناتا ہوں نوکِ خنجر سے
یہی اذیتِ شیشہ گری ملی ہے مجھے
سفر کے واسطے بیساکھیاں پڑی ہوئی تھیں
کہیں ملا ہے مجھے زخمِ دل اٹھانے کو
کہیں گلابوں بھری ٹوکری ملی ہے مجھے
تُو میرے جسم کو بھی موم کا غلاف سمجھ
یہ کھال چاہے بہت کھردری ملی ہے مجھے
بس اک تبسم گلریز اس کے ہونٹوں پر
یا اک مشقتِ نوحہ گری ملی ہے مجھے
نکل کے یونہی نہیں آیا موت کے منہ سے
سمجھ لو زندگی ہی دوسری ملی ہے مجھے
اسے کتاب سے عاطف ملا ہے سرخ گلاب
پرانے باغ سے بارہ دری ملی ہے مجھے
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment