Wednesday 6 September 2017

یہ مملکت تو سبھی کی ہے خواب سب کا ہے

سبھی شریکِ سفر ہیں​
یہ مملکت تو سبھی کی ہے خواب سب کا ہے
یہاں پہ قافلۂ رنگ و بو اگر ٹھہرے
تو حُسنِ خیمۂ برگ و گلاب سب کا ہے
یہاں خزاں کے بگولے اٹھیں تو ہم نفسو!
چراغ سب کے بجھیں گے عذاب سب کا ہے

تمہیں خبر ہے کہ جنگاہ جب پکارتی ہے
تو غازیانِ وطن ہی فقط نہیں جاتے
تمام قوم ہی لشکر کا روپ دھارتی ہے
محاذِ جنگ پہ مردانِ حُر، تو شہروں میں
تمام خلق بدن پہ زرہ سنوارتی ہے

مِلوں میں چہرۂ مزدور تمتماتا ہے
تو کھیتیوں میں کسان اور خون بھرتے ہیں
وطن پہ جب بھی کوئی سخت وقت آتا ہے
تو شاعرانِ دل افگار کا غیور قلم
مجاہدانِ جری کے رجز سناتا ہے

جلیں گے ساتھ سبھی کیمیا سبھی ہوں گے
اور اب جو آگ لگی ہے مرے دیاروں میں
تو اس بلا سے نبرد آزما سبھی ہوں گے
سپاہیوں کے علم ہوں کہ شاعروں کے قلم
مرے وطن ترے درد آشنا سبھی ہوں گے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment