لہو سمیت غمِ جاوداں نکالتا ہوں
میں خود کو مار کے ہی اپنی جاں نکالتا ہوں
فقط دعا ہی مصیبت کو ٹال سکتی ہے
ہوا چلے تو یہی بادباں نکالتا ہوں
کنویں کی تہہ سے تو پانی نکالا جاتا ہے
جہاں بھی اس سے ملاقات ختم ہوتی ہے
چراغِ اشک اسی درمیاں نکالتا ہوں
اگر اسی طرح مٹی ہی مجھ میں بھرنی تھی
تو میں بھی خواہشِ آبِ رواں نکالتا ہوں
قضا سے چھینتا ہوں سانس مردہ لوگوں کی
بھنور سے ڈوبی ہوئی کشتیاں نکالتا ہوں
شبِ سیاہ نکلتی ہے میری مٹھی سے
میں یوں چراغ سے اپنا دھواں نکالتا ہوں
بچھڑنے والوں سے بھی اک نششت ہو جائے
کہیں سے آئینۂ رفتگاں نکالتا ہوں
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment