انہیں ہو گی بھلا کیا جو، ہمیں نخروں کی عادت ہے
وہ کہتے ہیں اگر کل تو، ہمیں پرسوں کی عادت ہے
سنا ہے وقت مرہم ہے، جو بھر دیتا ہے زخموں کو
تو کیا ہو گا ہمارا پھر، ہمیں زخموں کی عادت ہے
سنو ہمدم! یہ منزل ہے، مبارک ہو تمہیں منزل
سُنو، اے جاگنے والو! ذرا کم شور، سونا ہے
تمہیں ہو گی حقیقت کی ہمیں خوابوں کی عادت ہے
ہماری دوست دشمن سب سے محفل خوب جمتی ہے
ہمیں اچھے برے جیسے بھی ہوں، لوگوں کی عادت ہے
تمہیں ہو گی گریباں چاک کر کے خاک اڑانے کی
ہمیں صحرا بسانے ہیں، ہمیں چشموں کی عادت ہے
یہ دیکھو نِیل چہرے پر، یہ دیکھو سرخی آنکھوں میں
نہیں سب ٹھیک ہے بس یونہی، کچھ رنگوں کی عادت ہے
سلیقے سے کہا جائے تو سچ بھی میٹھا لگتا ہے
ہمیں نعروں سے نفرت ہے ہمیں شعروں کی عادت ہے
عابی مکھنوی
No comments:
Post a Comment