Wednesday 20 September 2017

گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے

گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے 
پرندہ بھی شکاری کی سپاری لے کے نکلا ہے 
نکلنے والا یہ کیسی سواری لے کے نکلا ہے 
مداری جیسے سانپوں کی پٹاری لے کے نکلا ہے 
بہر قیمت وفاداری ہی ساری لے کے نکلا ہے 
ہتھیلی پر اگر وہ جان پیاری لے کے نکلا ہے 
یقیناً ہجرتوں کی جانکاری لے کے نکلا ہے 
اگر اپنے ہی گھر سے بے قراری لے کے نکلا ہے 
کھلونے کی تڑپ میں خود کھلونا وہ نہ بن جائے 
مِرا بچہ سڑک پر ریزگاری لے کے نکلا ہے 
اگر دنیا بھی مل جائے رہے گا ہاتھ پھیلائے 
عجب کشکول دنیا کا بھکاری لے کے نکلا ہے 
خطا کاری مِری امیدوارِ دامنِ رحمت 
مگر مفتی تو قرآن و بخاری لے کے نکلا ہے 
جھلکتا ہے مزاج شہریاری ہر بنِ مُو سے 
بظاہر خیرؔ حرف خاکساری لے کے نکلا ہے 

رؤف خیر

No comments:

Post a Comment