گرفتاری کے سب حربے شکاری لے کے نکلا ہے
پرندہ بھی شکاری کی سپاری لے کے نکلا ہے
نکلنے والا یہ کیسی سواری لے کے نکلا ہے
مداری جیسے سانپوں کی پٹاری لے کے نکلا ہے
بہر قیمت وفاداری ہی ساری لے کے نکلا ہے
یقیناً ہجرتوں کی جانکاری لے کے نکلا ہے
اگر اپنے ہی گھر سے بے قراری لے کے نکلا ہے
کھلونے کی تڑپ میں خود کھلونا وہ نہ بن جائے
مِرا بچہ سڑک پر ریزگاری لے کے نکلا ہے
اگر دنیا بھی مل جائے رہے گا ہاتھ پھیلائے
عجب کشکول دنیا کا بھکاری لے کے نکلا ہے
خطا کاری مِری امیدوارِ دامنِ رحمت
مگر مفتی تو قرآن و بخاری لے کے نکلا ہے
جھلکتا ہے مزاج شہریاری ہر بنِ مُو سے
بظاہر خیرؔ حرف خاکساری لے کے نکلا ہے
رؤف خیر
No comments:
Post a Comment