کچھ صلہ ہی نہ ملا عشق میں جل جانے کا
شمع نے لوٹ لیا سوز بھی پروانے کا
میری بالیں پہ مرے واسطے رونے والے
اب نہ جینے ہی کا موقع ہے نہ مر جانے کا
ضبط فریاد کی بے سود توقع دل سے
میرا مٹنا نہیں آسان محبت کی قسم
موت ہے نام تِرے دل سے اتر جانے کا
حشر تک روئے گی دنیائے محبت مجھ کو
سلسلہ ختم نہ ہو گا مِرے افسانے کا
موت کی نیند سے انساں کو جگا دیتی ہے
جس حقیقت میں ذرا رنگ ہو افسانے کا
اس طرح مجھ سے مخاطب ہے زمانہ جیسے
ہوش کی فکر بھی اک فرض ہو دیوانے کا
ان کے اندازِ ستم کا ہے تقاضا باسطؔ
عہد کر لیجئے مر مر کے جئے جانے کا
باسط بھوپالی
No comments:
Post a Comment