Tuesday, 26 September 2017

کچھ صلا ہی نہ ملا عشق میں جل جانے کا

کچھ صلہ ہی نہ ملا عشق میں جل جانے کا 
شمع نے لوٹ لیا سوز بھی پروانے کا 
میری بالیں پہ مرے واسطے رونے والے
اب نہ جینے ہی کا موقع ہے نہ مر جانے کا
ضبط فریاد کی بے سود توقع دل سے 
ظرف کیوں دیکھیے ٹوٹے ہوئے پیمانے کا 
میرا مٹنا نہیں آسان محبت کی قسم 
موت ہے نام تِرے دل سے اتر جانے کا 
حشر تک روئے گی دنیائے محبت مجھ کو 
سلسلہ ختم نہ ہو گا مِرے افسانے کا 
موت کی نیند سے انساں کو جگا دیتی ہے 
جس حقیقت میں ذرا رنگ ہو افسانے کا 
اس طرح مجھ سے مخاطب ہے زمانہ جیسے 
ہوش کی فکر بھی اک فرض ہو دیوانے کا 
ان کے اندازِ ستم کا ہے تقاضا باسطؔ 
عہد کر لیجئے مر مر کے جئے جانے کا 

باسط بھوپالی

No comments:

Post a Comment