Wednesday 20 September 2017

دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم

دھرتی سے دور ہیں نہ قریب آسماں سے ہم
کوفے کا حال دیکھ رہے ہیں جہاں سے ہم
رکھا ہے بے نیاز اسی بے نیاز نے
وابستہ ہی نہیں ہیں کسی آستاں سے ہم
رکھتا نہیں ہے کوئی ’شہادت‘ کا حوصلہ
اس کے خلاف لائیں گواہی کہاں سے ہم
محفل میں اس نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا
اٹھنے لگے تھے ایک ذرا درمیاں سے ہم
حد جس جگہ ہو ختم حریفاں خیرؔ کی
واللہ شروع ہوتے ہیں اکثر وہاں سے ہم

رؤف خیر

No comments:

Post a Comment