Thursday 28 September 2017

جو پی رہا ہے سدا خون بے گناہوں کا

جو پی رہا ہے سدا خون بے گناہوں کا 
وہ شخص تو ہے نمائندہ کج کلاہوں کا 
جسے بھی چاہا صلیبِ ستم پہ کھینچ دیا 
فقیہِ شہر تو قائل نہیں گواہوں کا 
ہم اہلِ دل ہیں صداقت ہمارا شیوہ ہے 
ہمیں ڈرا نہ سکے گا جلال شاہوں کا 
ہر ایک قدر کو رسوائیاں ملیں ان سے 
عجیب سا رہا کردار دِیں پناہوں کا 
مِری زمین کو مقبوضہ تو زمیں نہ سمجھ 
کہ ٹوٹنے کو ہے افسوں تِری سپاہوں کا 
ابھی تو عزمِ سفر بھی کیا نہ تھا ہم نے 
کہ جاگ اٹھا ہر اک ذرہ شاہراہوں کا 

بخش لائلپوری

No comments:

Post a Comment