Monday, 25 September 2017

دل شوریدہ کی وحشت نہیں دیکھی جاتی

دلِ شوریدہ کی وحشت نہیں دیکھی جاتی
روز اک سر پہ قیامت نہیں دیکھی جاتی
اب ان آنکھوں میں وہ اگلی سی ندامت بھی نہیں
اب دل زار کی حالت نہیں دیکھی جاتی
بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر
اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی
آپ کی رنجش بے جا ہی بہت ہے مجھ کو
دل پہ ہر تازہ مصیبت نہیں دیکھی جاتی
تُو کہانی ہی کے پردے میں بھلی لگتی ہے
زندگی! تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی
لفظ اس شوخ کا منہ دیکھ کے رہ جاتے ہیں
لبِ اظہار کی حسرت نہیں دیکھی جاتی
دشمنِ جاں ہی سہی، ساتھ تو اک عمر کا ہے
دل سے اب درد کی رخصت نہیں دیکھی جاتی
دیکھا جاتا ہے یہاں حوصلۂ قطع سفر
نفسِ چند کی مہلت نہیں دیکھی جاتی
دیکھیے جب بھی مژہ پر ہے اک آنسو اخترؔ
دیدۂ تر کی رفاقت نہیں دیکھی جاتی

اختر سعید خان

No comments:

Post a Comment