مۓ نورِ خدا ہوتی دل عرشِ خدا ہوتا
تھوڑی سی جو پی لیتے کیا جانیے کیا ہوتا
ہم جا کے جو بھولے سے مسجد میں اذاں کہتے
بے دست برہمن بھی ناقوس بجا ہوتا
دن ہے یہ قیامت کا ہم ہجر کے مارے ہیں
خلوت گہِ دل میں تم چپکے سے جو آ جاتے
پردے میں سویدا کے کیا جانیے کیا ہوتا
لطت آتے اسیری میں اے کاش قفس اپنا
پھولوں سے لدا ہوتا پھولوں سے بھرا ہوتا
اچھا تھا مِرے مالک یوں میری گزر جاتی
درگاہ تِری ہوتی یہ دست دعا ہوتا
رحمت سے ریاضؔ اس کے تھے ساتھ دو فرشتے
اک حور جو بڑھ جاتی تو اور مزا ہوتا
ریاض خیر آبادی
No comments:
Post a Comment