Wednesday 6 September 2017

اے مرے شہر میں تجھ سے نادم ہوں

اے مِرے شہر
مِرے شہر
میں تجھ سے نادم ہوں
اس خامشی کے لئے
جب عدو تیری خوابیدہ گلیوں پہ
بھیگی ہوئی رات میں
آگ برسا رہا تھا
میں چپ تھا

مرے شہر
میں تیرا مجرم ہوں
اس بےحسی کے لیے
جب ترے بام و در
طاق و دہلیز و دیوار
تیرے مکینوں کے
خونِ حنا رنگ سے
تر بتر ہو رہے تھے
تو میں چشم بستہ تھا

اے مرے آباء کے مسکن
میں تیرا گنہگار ہوں
جب ترے آئینۂ رنگ چشموں سے
اک جوئے خوں آ ملی تھی
تو میرے لبوں پر
کوئی حرفِ ماتم نہ آیا
کہ جب تیرے زرتاب خِرمن پہ
سفاک بجلی گری تھی
تو میں تیری جلتی ہوئی کھیتیوں کی طرف
بادلِ چاک و با چشمِ پُرنم نہ آیا

میں شرمندہ ہوں
اے مرے برگزیدہ بزرگوں کی بستی
کہ اِس درد کی فصل میں
تیرے فرزند شاعر کی نوکِ قلم پر
ترا اسمِ اعظم نہ آیا
یہ سب کچھ بجا ہے 
یہ سب کچھ بجا ہے
مگر اے مقدس زمیں 
تیری مٹی نے جب میری صورت گری کی
تو ورثے میں تُو نے
مجھے ایسا دل دے دیا تھا
جو اپنے دُکھوں کے سمندر نہ دیکھے
مگر دوسروں کے نمِ چشم سے با خبر ہو
مجھے تیری گِل نے وہ احساس بخشا
جو اپنے عزیزوں کی لاشوں پہ
پتھر بنا دم بخود ہو
مگر کاہشِ دیگراں پر
سدا نوحہ گر ہو

مرے شہر
جب تیرے سینے سے
مینارِ خوں اٹھ رہا تھا
میں اس وقت
غافل نہیں تھا
میں بے حس نہیں تھا
مگر اس گھڑی میرا سارا وطن
ظلم کی زد میں تھا
میرا سارا چمن
آگ کی حد میں تھا
ساری دنیا کی مظلومیت، میری آہوں میں تھی
ساری دنیا میری نگاہوں میں تھی
اس سمے
تُو ہی تُو تھا
پشاور کا
لاہور کا
اور
بنگال کا نام، کوہاٹ تھا
کاشمیر
کوریا
ہیروشیما کا ویتنام کا نام، کوہاٹ تھا
ساری مظلوم دنیا کے ہر شہر کا نام کوہاٹ تھا

اے مرے شہر
میرا قلم اپنے کردار پر
تجھ سے نادم سہی
خود سے نادم نہیں
تو مرا شہر ہے
پر مرا شہر تو آج ساری زمیں ہے
فقط تو نہیں ہے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment