Thursday, 21 September 2017

درون خواب بھی پانی کا ڈر جاگا ہوا ہے

درون خواب بھی پانی کا ڈر جاگا ہوا ہے 
کنارہ سو رہا ہے اور بھنور جاگا ہوا ہے
سر بستر میں اپنی نیند پوری کر رہا ہوں 
برابر میں مِرا سارا سفر جاگا ہوا ہے
تِری یادیں بدن کو خوب صورت کر رہی ہیں 
پرندوں کے چہکنے سے شجر جاگا ہوا ہے
میں اس کے آنسوؤں کو کون سی لوری سناؤں 
مِرا اپنا چراغ چشم تر جاگا ہوا ہے
کوئی بار تبسم جھانکتا ہے کھڑکیوں سے 
اسی نظارگی میں گھر کا گھر جاگا ہوا ہے

عاطف کمال رانا

No comments:

Post a Comment