درون خواب بھی پانی کا ڈر جاگا ہوا ہے
کنارہ سو رہا ہے اور بھنور جاگا ہوا ہے
سر بستر میں اپنی نیند پوری کر رہا ہوں
برابر میں مِرا سارا سفر جاگا ہوا ہے
تِری یادیں بدن کو خوب صورت کر رہی ہیں
میں اس کے آنسوؤں کو کون سی لوری سناؤں
مِرا اپنا چراغ چشم تر جاگا ہوا ہے
کوئی بار تبسم جھانکتا ہے کھڑکیوں سے
اسی نظارگی میں گھر کا گھر جاگا ہوا ہے
عاطف کمال رانا
No comments:
Post a Comment