Sunday 26 April 2020

ہم تو بار غم عشق اٹھا کر چلے

ہم تو بارِ غمِ عشق اٹھا کر چلے
اور جنابِ خضر آپ کیا کر چلے
سارے عالم کو موسٰیؑ بنا کر چلے
ان کے جلوے قیامت بپا کر چلے
رہ گئے دیکھتے آسمان و زمیں
ہم  جو بارِ امانت اٹھا کر چلے

خوشی جانتے ہیں نہ غم جانتے ہیں

خوشی جانتے ہیں نہ غم جانتے ہیں
جو ان کی رضا ہو وہ ہم جانتے ہیں
جو کچھ چار تنکوں کو ہم جانتے ہیں
وہ گلچین و صیاد کم جانتے ہیں
تمہارے ہی جلووں کی ہم روشنی کو
تجلیٔ دَیر و حرم جانتے ہیں

مری ہستی کا جلووں میں ترے روپوش ہو جانا

مِری ہستی کا جلووں میں تِرے روپوش ہو جانا
یہیں تو ہے بس اک قطرہ کا دریا نوش ہو جانا
تمہیں کیا غم، مبارک ہو تمہیں روپوش ہو جانا
ہُوا جاتا ہے افسانہ مِرا بے ہوش ہو جانا
یہ اچھی ابتدا کی آپ نے اے حضرتِ موسیٰ
دمِ دیدار اب لازم ہُوا بے ہوش ہو جانا

ابھی سے عالم ہے بے خودی کا ابھی تو پردہ اٹھا نہیں ہے

خرد ہے مجبور عقل حیراں پتہ کہیں ہوش کا نہیں ہے 
ابھی سے عالم ہے بے خودی کا ابھی تو پردہ اٹھا نہیں ہے 
ہے وہ بھی کوئی جبین سجدہ اٹھے تمہارے جو نقشِ پا سے 
نہ جذب کر لے اگر جبیں کو تمہارا وہ نقشِ پا نہیں ہے 
نظر نظر اک نیا ہے جلوہ نفس نفس اک نئی ہے دنیا 
نگاہ کی پھر بھی انتہا ہے،۔ جمال کی انتہا نہیں ہے 

Tuesday 21 April 2020

چھوڑ جانے کی وہ جرأت بھی نہیں کر سکتا

چھوڑ جانے کی وہ جرأت بھی نہیں کر سکتا
بوڑھی رسموں سے بغاوت بھی نہیں کر سکتا
تو مِری جاں ہے مگر، ہے تو طوائف ہی ناں
میں تِری کھل کے حمایت بھی نہیں کر سکتا
وہ جسے پوجتے اک عمر گزاری ہم نے
کیا وہ اک بار عنایت بھی نہیں کر سکتا

فلک سے ٹوٹے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو

فلک سے ٹوٹے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو
خود اپنی ذات سے ہارے کا دکھ سمجھتے ہو
شجر لگانے پہ "دریا" نے ایک بات کہی
تمہی تو ہو جو کنارے کا "دکھ" سمجھتے ہو
تمہیں حساب پہ ہے کتنی دسترس، لیکن
محبتوں میں خسارے کا دکھ سمجھتے ہو

Thursday 9 April 2020

ہم بگولے کہ ہوا ہیں یارو

کوئی بتلائے کہ کیا ہیں یارو
ہم بگولے کہ ہوا ہیں یارو
تنگ ہے وسعت صحرائے جنوں
ولولے دل کے سوا ہیں یارو
سرد و بے رنگ ہے ذرہ ذرہ
گرمئ رنگ صدا ہیں یارو

وہ بے نیاز مجھے الجھنوں میں ڈال گیا

وہ بے نیاز مجھے الجھنوں میں ڈال گیا
کہ جس کے پیار میں احساسِ ماہ و سال گیا
ہر ایک بات کے یوں تو دئیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کے ٹال گیا
کئی سوال تھے جو میں نے سوچ رکھے تھے
وہ آ گیا تو مجھے بھول ہر سوال گیا

Wednesday 1 April 2020

سبھی کی راہ دیا اب جلانا لازم ہے

سبھی کی راہ دیا اب جلانا لازم ہے 
یہ دور وہ ہے کہ ہنسنا ہنسانا لازم ہے 
خدا کی یاد بھی لازم ہے اس گھڑی لیکن 
خدا کے بندوں کی ہمت بڑھانا لازم ہے
ہے احتیاط ہی واحد علاج بستی کا
بس اس کے ساتھ ترا مسکرانا لازم ہے

چار دن احتیاط کر لیجے

دشمنِ جاں کو مات کر لیجے
چار دن احتیاط کر لیجے
اپنے گھر کے حسیں مکینوں کو
اپنی کل کائنات کر لیجے
رحم خود پر اگر نہیں آتا
اپنے بچوں کے ساتھ کر لیجے

درگزر میری ہر خطا کر دے

درگزر میری ہر خطا کر دے
بے سکوں ہوں سکوں عطا کر دے
میرے لب پر وہی دعا کر دے
جو معطل مِری سزا کر دے
جو نہ بھولے کبھی تجھے اک پل
حافظہ وہ مجھے عطا کر دے