ہم تو بارِ غمِ عشق اٹھا کر چلے
اور جنابِ خضر آپ کیا کر چلے
سارے عالم کو موسٰیؑ بنا کر چلے
ان کے جلوے قیامت بپا کر چلے
رہ گئے دیکھتے آسمان و زمیں
ان کے نقشِ قدم مل گئے جس جگہ
ہم وہیں اپنا کعبہ بنا کر چلے
زندگی ان کی بھی ہے کوئی زندگی
جو نمازِ محبت قضا کر چلے
جتنے سجدے جبیں میں تھے شیخِ حرم
ان کے نقشِ قدم پر ادا کر چلے
مل گیا حاصلِ دید افقؔر ہمیں
وہ دمِ نزع جلوہ دکھا کر چلے
افقر موہانی وارثی
No comments:
Post a Comment