خرد ہے مجبور عقل حیراں پتہ کہیں ہوش کا نہیں ہے
ابھی سے عالم ہے بے خودی کا ابھی تو پردہ اٹھا نہیں ہے
ہے وہ بھی کوئی جبین سجدہ اٹھے تمہارے جو نقشِ پا سے
نہ جذب کر لے اگر جبیں کو تمہارا وہ نقشِ پا نہیں ہے
نظر نظر اک نیا ہے جلوہ نفس نفس اک نئی ہے دنیا
ہوا یہ معلوم بعد مدت کسی کی نیرنگیٔ ستم سے
ستم باندازۂ ادا ہے،۔۔ ادا بقدرِ جفا نہیں ہے
ازل سے ہے آسماں خمیدہ نہ کر سکا پھر بھی ایک سجدہ
وہ ڈھونڈھتا ہے جس آستاں کو،۔ وہ آستانہ ملا نہیں ہے
ہزار رنگ زمانہ بدلے،۔۔ ہزار دورِ نشاط آئے
جو بجھ چکا ہے ہوائے غم سے چراغ پھر وہ جلا نہیں ہے
مِرے نظامِ حیات میں کچھ کمی سی محسوس ہو رہی ہے
مگر ہو تم کس لیے پریشاں، سوال دل کا اٹھا نہیں ہے
بہار آنے کی آرزو کیا، بہار خود ہے نظر کا دھوکا
ابھی چمن جنت نظر ہے،۔ ابھی چمن کا پتا نہیں ہے
خوشی ہے زاہد کی ورنہ ساقی! خیالِ توبہ رہے گا کب تک
کہ تیرا رندِ خراب افقؔر ولی نہیں،۔ پارسا نہیں ہے
افقر موہانی وارثی
No comments:
Post a Comment