Sunday, 26 April 2020

ابھی سے عالم ہے بے خودی کا ابھی تو پردہ اٹھا نہیں ہے

خرد ہے مجبور عقل حیراں پتہ کہیں ہوش کا نہیں ہے 
ابھی سے عالم ہے بے خودی کا ابھی تو پردہ اٹھا نہیں ہے 
ہے وہ بھی کوئی جبین سجدہ اٹھے تمہارے جو نقشِ پا سے 
نہ جذب کر لے اگر جبیں کو تمہارا وہ نقشِ پا نہیں ہے 
نظر نظر اک نیا ہے جلوہ نفس نفس اک نئی ہے دنیا 
نگاہ کی پھر بھی انتہا ہے،۔ جمال کی انتہا نہیں ہے 
ہوا یہ معلوم بعد مدت کسی کی نیرنگیٔ ستم سے 
ستم باندازۂ ادا ہے،۔۔ ادا بقدرِ جفا نہیں ہے 
ازل سے ہے آسماں خمیدہ نہ کر سکا پھر بھی ایک سجدہ 
وہ ڈھونڈھتا ہے جس آستاں کو،۔ وہ آستانہ ملا نہیں ہے 
ہزار رنگ زمانہ بدلے،۔۔ ہزار دورِ نشاط آئے 
جو بجھ چکا ہے ہوائے غم سے چراغ پھر وہ جلا نہیں ہے 
مِرے نظامِ حیات میں کچھ کمی سی محسوس ہو رہی ہے 
مگر ہو تم کس لیے پریشاں، سوال دل کا اٹھا نہیں ہے 
بہار آنے کی آرزو کیا، بہار خود ہے نظر کا دھوکا 
ابھی چمن جنت نظر ہے،۔ ابھی چمن کا پتا نہیں ہے 
خوشی ہے زاہد کی ورنہ ساقی! خیالِ توبہ رہے گا کب تک 
کہ تیرا رندِ خراب افقؔر ولی نہیں،۔ پارسا نہیں ہے 

افقر موہانی وارثی

No comments:

Post a Comment