فلک سے ٹوٹے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو
خود اپنی ذات سے ہارے کا دکھ سمجھتے ہو
شجر لگانے پہ "دریا" نے ایک بات کہی
تمہی تو ہو جو کنارے کا "دکھ" سمجھتے ہو
تمہیں حساب پہ ہے کتنی دسترس، لیکن
ہمارے ہنسنے پہ تم رو دئیے، تو ظاہر ہے
دلوں کو چیرتے آرے کا دکھ سمجھتے ہو
ہمارا اس سے بچھڑنے کا دکھ سمجھ لو گے
سحر سے ڈرتے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو
پھنسی ہوئی ہے ٹریفک کی بھیڑ میں وہ جہاں
وہاں کے سرخ اشارے کا دکھ سمجھتے ہو
حسیب الحسن
No comments:
Post a Comment