Tuesday 21 April 2020

فلک سے ٹوٹے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو

فلک سے ٹوٹے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو
خود اپنی ذات سے ہارے کا دکھ سمجھتے ہو
شجر لگانے پہ "دریا" نے ایک بات کہی
تمہی تو ہو جو کنارے کا "دکھ" سمجھتے ہو
تمہیں حساب پہ ہے کتنی دسترس، لیکن
محبتوں میں خسارے کا دکھ سمجھتے ہو
ہمارے ہنسنے پہ تم رو دئیے، تو ظاہر ہے
دلوں کو چیرتے آرے کا دکھ سمجھتے ہو
ہمارا اس سے بچھڑنے کا دکھ سمجھ لو گے
سحر سے ڈرتے ستارے کا دکھ سمجھتے ہو
پھنسی ہوئی ہے ٹریفک کی بھیڑ میں وہ جہاں
وہاں کے سرخ اشارے کا دکھ سمجھتے ہو

حسیب الحسن

No comments:

Post a Comment