Friday 30 September 2022

کوئی خواب تھا کہ سراب تھا جو تھا رات بھر مری آنکھ میں

 کوئی خواب تھا کہ سراب تھا جو تھا رات بھر میری آنکھ میں

یا وہ آنسوؤں کا چناب تھا، جو تھا رات بھر میری آنکھ میں

یہ جو بارشیں تھیں بہار کی، وجہ شکل خم تھی خمار کی

رواں آنکھ سے وہی آب تھا جو تھا رات بھر میری آنکھ میں

نہ میں رو سکا نہ میں سو سکا کئی رتجگے مِرے ساتھ تھے

تِری دید کا ہی عذاب تھا، جو تھا رات بھر میری آنکھ میں

اب وہاں لو ہے مری فریاد کی

 اب وہاں لو ہے مِری فریاد کی

وقت کے صحرا میں جتنی ریت ہے

سب پھانک لی

راستوں کے بر سے عمریں ماپ لیں

دوریوں کا سم پروں میں بھر لیا

وُسعتوں کو آنسوؤں پر جر لیا

ان کے چہروں پہ مسافت کے نشاں ہوتے ہیں

 ان کے چہروں پہ مسافت کے نشاں ہوتے ہیں

جن کی قسمت میں کرائے کے مکاں ہوتے ہیں

وقت کے ساتھ اترتی ہیں نقابیں ساری

ہوتے ہوتے ہی کئی راز عیاں ہوتے ہیں

تم نے سوچا ہے کبھی تم سے بچھڑ نے والے

کیسے جلتے ہیں، شب و روز دھواں ہوتے ہیں

جیا دھڑک دھڑک جیا دھڑک دھڑک جائے

 فلمی گیت


تجھے دیکھ دیکھ سونا

تجھے دیکھ کر ہے جگنا

میں نے یہ زندگانی

سنگ تیرے بِیتانی

تجھ میں بسی ہے میری جان ہائے

جیا دھڑک دھڑک، جیا دھڑک دھڑک جائے

دل میں طوفان چھپائے بیٹھا ہوں

 فلمی گیت 


دل میں طوفان چھپائے بیٹھا ہوں

یہ نہ سمجھو کہ مجھ کو پیار نہیں

تم جو آئے ہو میری دنیا میں

اب کسی کا مجھ کو انتظار نہیں


میری قسمت کے تم ستارے ہو 

زندگی سے بھی مجھ کو پیارے ہو 

اے پھولوں کی رانی بہاروں کی ملکہ

 فلمی گیت 


اے پھولوں کی رانی بہاروں کی ملکہ

تیرا مسکرانا غضب ہو گیا

نہ دل ہوش میں ہے نہ ہم ہوش میں ہیں

نظر کا ملانا غضب ہو گیا

تیرے ہونٹ کیا ہیں گلابی کنول ہیں

یہ دو پتیاں پیار کی اک غزل ہیں

رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کرو

 فلمی گیت 


رنگ اور نور کی بارات کسے پیش کرو

یہ مُرادوں کی حسین، رات کسے پیش کروں

رنگ اور نور کی بارات ۔۔۔۔۔۔۔


میں نے جذبات نبھائے ہیں اصولوں کی جگہ

اپنے ارمان پرو لایا ہوں پُھولوں کی جگہ

تیرے سہرے کی یہ سوغات کسے پیش کروں

یہ طبیعت ترنگ میں کھلے گی

 یہ طبیعت ترنگ میں کُھلے گی

اور پھر رنگ رنگ میں کھلے گی

آگے ہو گی سُرنگ بعدِ سُرنگ

ہر سُرنگ اک سُرنگ میں کھلے گی

رات سوئیں گے لوگ بستر پر

آنکھ میدانِ جنگ میں کھلے گی

سیدھا سا دل تھا پڑ گیا اس کج ادا کے ہاتھ

 سیدھا سا دل تھا پڑ گیا اس کج ادا کے ہاتھ

اور میں غریب رہ گیا بس مل ملا کے ہاتھ

باتیں بنا رہے ہیں وہ ایسی بنا کے ہاتھ

جیسے حلیم گھوٹ رہے ہوں چلا کے ہاتھ

تہذیب کے خلاف جو حرکت تھی اب کہاں

اظہارِ عشق کرتے ہیں اب تو دبا کے ہاتھ

روزانہ ایک چیخ مجھ پہ گرتی ہے

 ڈومیسٹک وائلینس


روزانہ ایک چیخ مجھ پہ گرتی ہے

مگر میں خاموش رہتا ہوں

ایک بے موقع، رعب دار آواز

دو بے وجہ گھورتی ہوئی آنکھیں

میرے گرد ایک دائرہ کھینچتی ہیں

بہت دن ہو گئے ہیں آنسوؤں سے مل نہیں پائے

بہت دن ہو گئے ہیں 

بہت دن ہو گئے ہیں 

آنسوؤں سے مل نہیں پائے 

اداسی درد کا نعم البدل ہو کر بھی 

کچھ ایسی نہیں ہوتی 

زمانے بھر کی خوشیاں اور سُکھ 

کبھی دھنک کبھی شاخ نبات سا پھیلا

 کبھی دھنک، کبھی شاخِ نبات سا پھیلا

طرف طرف، میں طلسماتِ ذات سا پھیلا

عجب گرفتِ ہوس خوشبوؤں کے لمس میں تھی

ہوا کے سینے پہ اک نرم ہات سا پھیلا

ہوں اپنے بسترِ احساس میں شکن کی طرح

کبھی میں خواب سا بکھرا، نہ رات سا پھیلا

ایک عالم میں کہاں سب کی بسر ہوتی ہے

 ایک عالم میں کہاں سب کی بسر ہوتی ہے

شام، پروانوں کی نظروں میں سحر ہوتی ہے

دل کو بے لفظ پیاموں کی خبر ہوتی ہے

ہائے! کیا چیز محبت کی نظر ہوتی ہے

زندگی کو نہیں تسکینِ محبت حاصل

یوں تو ہونے کو بہر حال بسر ہوتی ہے

میرے جگر کے درد کا چارا کب آئے گا

 میرے جگر کے درد کا چارا کب آئے گا

یک بار ہو گیا ہے، دوبارا کب آئے گا

پُتلی ہمارے نیں کے جھروکے میں بیٹھ کر

بے کل ہو جھانکتی ہے، پیارا کب آئے گا

اس مُشتری جبِیں کا مجھے غم ہوا زُحل

طالع مِرے کا نیک سِتارا کب آئے گا

مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے

 مجنوں نے شہر چھوڑا تُو صحرا بھی چھوڑ دے

نظارے کی ہوس ہو تو لیلیٰ بھی چھوڑ دے

واعظ! کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد

دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے

تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی

رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے

زنجیر ہلتی رہتی ہے مضمون بدلتا رہتا ہے

زنجیر ہلتی رہتی ہے


دن تو سب اک جیسے ہوتے ہیں

اپنے اپنے قد اپنی اپنی بینائی سے

مضمون بدلتا رہتا ہے

دنیا گرد و پیش کو قطرہ قطرہ

جوڑ کے زندہ کرتی ہے

اک دروازہ کھلتا ہے پریوں جیسے گاؤں میں

 اک دروازہ کُھلتا ہے پریوں جیسے گاؤں میں

راہ میں مدھ بن پڑتا ہے اونچے چیڑ کی، چھاؤں میں

وہ پگڈنڈی جس پر لیلیٰ اب تک رستہ دیکھتی ہے

اب تک سرسوں پُھول رہی ہے ان رنگین فضاؤں میں

بوڑھے برگد پر اب تک آسیب بسیرا کرتا ہے

جُھولے سُونے سُونے ہیں ساون کی مست فضاؤں

حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں

 حادثوں کی زد پہ ہیں تو مسکرانا چھوڑ دیں

زلزلوں کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں

تم نے میرے گھر نہ آنے کی قسم کھائی تو ہے

آنسوؤں سے بھی کہو آنکھوں میں آنا چھوڑ دیں

پیار کے دشمن کبھی تو پیار سے کہہ کے تو دیکھ

ایک تیرا در ہی کیا ہم تو زمانہ چھوڑ دیں

کانٹوں سے بھرے بن میں رستے کی بنا ڈالی

 کانٹوں سے بھرے بن میں رستے کی بِنا ڈالی

دے دے کے لہو طرحِ نقشِ کفِ پا ڈالی

بدلے میں دفینے کے قطرے ہیں پسینے کے

کیوں دل کی گواہی پر دیوار گرا ڈالی

پھر آج فضاؤں کو مطلوب ہے خونریزی

بادل کی زرہ پہنی، شمشیرِ صبا ڈالی

اپنی پلکوں پہ جمی گرد کا حاصل مانگے

 اپنی پلکوں پہ جمی گرد کا حاصل مانگے

وہ مسافر ہوں جو ہر موڑ پہ منزل مانگے

میری وسعت کی طلب نے مجھے محدود کیا

میں وہ دریا ہوں جو موجوں سے بھی ساحل مانگے

خواہش وصل کو سو رنگ کے مفہوم دئیے

بات آساں تھی مگر لفظ تو مشکل مانگے

بات اک سنتے تو سو مجھ کو سناتے جاتے

 بات اک سنتے، تو سو مجھ کو سناتے جاتے

رُوٹھ جانے سے تو بہتر تھا کہ آتے جاتے

وہ سرِ شام جدا ہو گئے، غم اس کا ہے

خیر سے رات گئے نیند کے ماتے، جاتے

نہ سہی لطف، تو بیدادِ تبسم ہی سہی

اور دیوانے کو دیوانہ بناتے جاتے

یعنی کہ ابھی خواب ہے جاری نہ گئی رات

 یعنی کہ ابھی خواب ہے جاری، نہ گئی رات

دن بھی نکل آیا پہ ہماری نہ گئی رات

رنگوں کے تعاقب میں گزارا  نہ گیا دن

خوشبو کی معیت میں گزاری نہ گئی رات

اک خواب کی تعظیم میں  بستر نہ لپیٹا

اک وعدۂ تعبیر پہ ہاری نہ گئی رات

گرد طوفاں رنگ آتش آب مینا کے لیے

 گردِ طوفاں رنگِ آتش آبِ مینا کے لیے

موجِ بوئے قطرۂ گل باغِ دریا کے لیے

کیوں پھروں مانند مجنوں کیوں گریباں چاک تُو

دامن یوسف بنا دستِ زلیخا کے لیے

شبنمِ بے تاب کو پرواہ نہیں گلزار کی

شاخِ دو عالم ہے آتش چشمِ بینا کے لیے

کب مجھ کو زعم خویش کہ میں برگزیدہ ہوں

 کب مجھ کو زعمِ خویش کہ میں برگزیدہ ہوں

سن لے مِری صدا کہ بہت دل دریدہ ہوں

دے نالۂ فراق کو داؤدؑ کی زباں

میں ہوں زبورِعشق مگر ناشنیدہ ہوں

گہ فرط و انبساط ہوں عہدِوصال میں

گہ عارضِ فراق پہ اشکِ چکیدہ ہوں

اتر رہی ہے نگاہوں میں مد بھری ہوئی شام

 اتر رہی ہے نگاہوں میں مد بھری ہوئی شام

یہ رس مقام دریچوں سے جھانکتی ہوئی شام

بنا رہی ہے مِرے نفسیات کا ماحول

سحر کے قیمتی ٹکڑوں سے یہ بنی ہوئی شام

اسے نہ جام و سخن سے پکارئے کہ یہ ہے

شراب و شعر سے آگے نکل چکی ہوئی شام

کچھ قلندر کہ کوہ عدم کی طرف عہد نامے سناتے ہوئے چل پڑے

 کچھ قلندر کہ کوہِ عدم کی طرف، عہد نامے سُناتے ہوئے چل پڑے

دشتِ موجود کی گھاٹیوں میں اِدھر، ہم نگاڑے بجاتے ہوئے چل پڑے

کارِ خلقت کا ناقوس بجنے کو تھا، کُن کی سرحد پہ پہلا دھماکہ ہوا

آفرینش کی چکی رواں ہو گئی، ہم بھی پہیہ گُھماتے ہوئے چل پڑے

ایک مُدت ہوئی مر چکے تھے مگر، ایٹمی تازیانوں کی للکار پر

اپنی فرسُودہ قبروں سے سُوکھی ہوئی، ہڈیاں کھڑکھڑاتے ہوئے چل پڑے

ترک کر یہ ماسوا ترک کر حرص و ہوا

 کشمیری کلام سے اردو ترجمہ


ترک کر یہ ماسوا ترک کر حرص و ہوا

نور ہی میں ڈوب جا دیکھ اس کے نور کو

وہ بہت ہے بے بہا وہ بہت نایاب ہے

ڈھونڈتا ہے دور کیا ہے وہ تیرے ہی قریب

وہ خلا ہے یا ملا کچھ نہیں اس کے سوا

دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے

 دل گراں بارئ وحشت میں جدھر جاتا ہے

شب مرحوم کے خوابوں سا بکھر جاتا ہے

کوئی پیمانِ وفا صبر سے بھر جاتا ہے

چار و ناچار کی دہشت میں گزر جاتا ہے

دھانی آوازوں کے سر تال میں بہتے بہتے

رقص صحرائی کے وہ بن میں اتر جاتا ہے

جرم عاشق کا اب معاف کرو

 جرم عاشق کا اب معاف کرو

دم لوٹک تیغ کوں غلاف کرو

ظلم کی مشق کب تلک پیارے

مؤقلم کر کے خط کوں صاف کرو

کان ہر ایک کے در کی جوں نہ لگے

ہم میں دو حرف واشگاف کرو

رہ گئی وہ نگاہ ناز قلب و جگر میں بیٹھ کر

 رہ گئی وہ نگاہ ناز قلب و جگر میں بیٹھ کر

دل میں لطیف سی خلش آنکھ ہے آنسوؤں سے تر

رات کی نیند اڑ گئی دن کا سکون لٹ گیا

تیری نگاہ ناز نے کر دیا دل پہ کیا اثر

سن نہ سکے اسی کو وہ کہہ نہ سکا اسی کو میں

عیش کی داستاں میں جو حال تھا غم کا مختصر

ہمیں جن سے محبت تھی انہیں ہم سے شکایت تھی

 ہمیں جن سے محبت تھی انہیں ہم سے شکایت تھی

کِیا ہم کو اگر رُسوا زمانے کی رعایت تھی

خدا نے بخش دی ہم کو زباں گویا بیاں گویا

مگر رُسوا نہیں کرتے بنا ہے گلستاں گویا

ظلم کتنے کئے مجھ پر مگر اُف تک نہیں کرتے

تجھے ہم پاسباں کرتے اگر اوروں پہ نا مرتے

تیرے چھونے سے رگ و پے میں نشہ بڑھتا ہے

تیرے چھونے سے رگ و پے میں نشہ بڑھتا ہے

مجھ سا صحرا بھی کسی طور ہرا پڑتا ہے

اونچا ہنستی ہوں تو بنتا ہے تماشا غم کا

دوسرا یہ کہ تأثر بھی بُرا پڑتا ہے

کس طرح آئے وہ پنجاب کا شہزادہ ادھر

میرے کشمیر کا ہر رستہ کڑا ہے

Thursday 29 September 2022

اندھیری رات مشکل سے کٹے ہے

 اندھیری رات مشکل سے کٹے ہے

تِرا چہرہ نگاہوں میں پھرے ہے

سنو جب تم نہیں ہوتے چمن میں

ہمارا سانس کیوں رکنے لگے ہے

مِرے پاؤں میں چھالے پڑگئے ہیں

یہ تم جانو کہ چھالا کب پڑے ہے

تکلفات کے صحرا میں کھو گیا کوئی

 تکلفات کے صحرا میں کھو گیا کوئی

قریب آ کے بہت دور ہو گیا کوئی

سوائے اپنے ہمیں کچھ نظر نہیں آتا

ہماری آنکھ میں سورج سمو گیا کوئی

لگائیں باغ پھلوں کے ہوئی نہ یہ توفیق

اسے بھی چاٹ گئے ہم جو بو گیا کوئی

میں جس کے واسطے سب سے لڑا ہوں

 میں جس کے واسطے سب سے لڑا ہوں

اسی کے ہاتھ سے مارا گیا ہوں

قفس میں اس لیے دل لگ گیا ہے

کہ تیرے ساتھ بھی تنہا رہا ہوں

گزارا تجھ سے ممکن تو نہیں ہے

مگر اے زندگی! میں کر رہا ہوں

اس کو پایا بھی اس میں کھویا بھی

اس کو پایا بھی اس میں کھویا بھی 


گم ہوئے روشنی کے سب آثار

چُھپ گیا مجھ سے میرا سایا بھی

کر گیا قتل مجھ کو دوست مِرا

نام مشکل ہے اس کا لینا بھی


اُس نے ٹھانی تھی چھوڑ جانے کی

میں نے تجھے عبادت گاہوں میں تلاش کیا

کشمیری کلام سے اردو ترجمہ


میں نے تجھے عبادت گاہوں میں تلاش کیا

میں نے تجھے ہر جگہ تلاش کیا

مگر تیرا پتہ نہ پایا 

جو زاہد اور متقی لوگوں سے پوچھا تو

انہوں نے رو کر اپنی بے بسی کا اظہار کیا 

جب میں نے عالم رنگ و بو کے 

شفق ہے نور سے پر نم مگر پھر بھی لہو میں ضم

 بے آسرا وطن


شفق ہے نُور سے پُر نم مگر پھر بھی لہو میں ضم

پھریں گے چار سُو میں ہم کہ بربادی پہ تیرے ہم

یہ دھرتی میرے جیون کی

ہمیشہ سے تھی شیون کی

بنی وادی بھنگیرن کی

آنکھ میں خون ناب رکھتی ہے

 آنکھ میں خون ناب رکھتی ہے

پانیوں میں شراب رکھتی ہے

وہ تعلق کی پہلی سیڑھی پر

خامشی کے گلاب رکھتی ہے

ہم کریں گے کوئی سوال اس سے

دیکھیے، کیا جواب رکھتی ہے

زرد دھوپ کی چادر اوڑھے شہر کے منظر

 مشورہ


زرد دُھوپ کی چادر اوڑھے شہر کے منظر سارے 

جانے کتنی صدیوں سے یہ آس لگائے بیٹھے ہیں

آنکھوں میں جگمگ کرتے ارمان سجائے بیٹھے ہیں 

کہ ہم دونوں کسی سہانی شام کی ہلکی ٹھنڈک میں لپٹے

نئے پرانے میٹھے سپنے لے کر سیر کو جا نکلیں

نیند آنکھوں میں جو آتی تو جگانے لگتے

 نیند آنکھوں میں جو آتی تو جگانے لگتے

خواب بچوں کی طرح شور مچانے لگتے

رات کو گھر نہیں آتا تو مِرے گھر والے

صبح کے وقت مِری خیر منانے لگتے

تیرے آ جانے سے پھر آ گئی زخموں پہ بہار

💢تُو نہیں آتا تو سب زخم پرانے لگتے

واسطہ کچھ نہیں میرا بھی ہما ہیر کے ساتھ

 واسطہ کچھ نہیں میرا بھی ہما ہیر کے ساتھ

جیسے بھارت کا تعلق نہیں کشمیر کے ساتھ

اب تو لازم ہے کہ تُو لوٹ کے گھر آ جائے

دل بہلتا ہے کہاں اب تِری تصویر کے ساتھ

ناز اس شخص کے پلکوں سے اٹھا کر میں نے

یہ جہاں چھوڑ دیا زخم کی تدبیر کے ساتھ

سنہری دھوپ کے پروردگار دھند کے پار

 سُنہری دھوپ کے پروردگار، دُھند کے پار

کوئی صحیفہ یہاں بھی اُتار،. دھند کے پار

رگوں میں آج بھی جیسے بھٹک رہا ہے کوئی

لہو کے گھوڑے پہ زخمی سوار، دھند کے پار

ہماری آنکھ میں اب تک دُھواں ہے خوابوں کا

کہ جل بُجھے ہیں ستارے ہزار، دھند کے پار

آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا

 آنکھوں پر پلکوں کا بوجھ نہیں ہوتا

درد کا رشتہ اپنی آن نہیں کھوتا

بستی کے حسّاس دلوں کو چُبھتا ہے

سنّاٹا جب ساری رات نہیں ہوتا

من نگری میں دھوم دھڑکا رہتا ہے

میرا میں جب میرے ساتھ نہیں ہوتا

Wednesday 28 September 2022

زہر اب آب و ہوا کا تو نہیں پِینا ہے

 زہر اب آب و ہوا کا تو نہیں پینا ہے

ہم کو زندان میں ڈالو کہ ہمیں جینا ہے

ہے مرض ایک ہی کیا شہر کے انسانوں کو

جو بھی مرتا ہے وہ کیوں تھامے ہوئے سینہ ہے

وسعتِ عالمِ امکان ذرا سوچیں تو

یہ زمیں اس میں فقط ایک قرنطینہ ہے

زندگی ایسے عجب موڑ پہ لے آئی ہے

 زندگی ایسے عجب موڑ پہ لے آئی ہے

میرے اطراف میں پھیلی ہوئی تنہائی ہے

حادثہ تجھ سے بچھڑنے کا بھلاؤں کیسے

میرے آنگن میں وہی گونجتی شہنائی ہے

موسمِ ہجر میرے ساتھ سفر کرتا ہے

بارشِ وصل بھی اب باعثِ رسوائی ہے

درکار کچھ نہیں تری مہر و وفا کے بعد

 درکار کچھ نہیں تِری مہر و وفا کے بعد

کچھ اور مانگتا ہی نہیں اس دعا کے بعد

قربان جاؤں ایسی سخاوت پہ میں حضور

کیا چاہیے جو پوچھ رہے ہیں عطا کے بعد

کیسا فقیر ہوں میں تِری بارگاہ کا

کشکول توڑ دیتا ہوں اکثر صدا کے بعد

ہاں اے فقیر شہر دل آزار دیکھنا

 آپ وہ اور میں (سہ رنگی کلام؛ نظم، نظم، غزل)

٭٭٭٭ آپ:: نظمیہ رنگ ٭٭٭٭

ہاں اے فقیرِ شہرِ دل آزار دیکھنا

گھر سے نکل کے وقت کی رفتار دیکھنا

پڑھنا ہر ایک چہرے پہ لکھے ہوئے حروف

ہر موڑ پر نوشتۂ دیوار دیکھنا

ہر شام جا کے دیکھنا جلسے عوام کے

ہر روز اٹھ کے صبح کا اخبار دیکھنا

جب میں نہ ہوں تو شہر میں مجھ سا کوئی تو ہو

  جب میں نہ ہوں تو شہر میں مجھ سا کوئی تو ہو

دیوارِ زندگی میں دریچہ کوئی تو ہو

اک پل کسی درخت کے سائے میں سانس لے

سارے نگر میں جاننے والا کوئی تو ہو

اے خوئے اجتناب! تعلق کہیں تو رکھ

بے چارگی میں پوچھنے والا کوئی تو ہو

چمپا اور چنبیلی یہ کلیاں نئی نویلی

 گیت


چمپا اور چنبیلی 

یہ کلیاں نئی نویلی

تحفہ پھولوں کا یہ انمول

میں تو بیچوں بِن مول

لیتے جانا بابو جی بِن مول

چمپا اور چنبیلی 

سینے میں سلگتے ہیں ارماں آنکھوں میں اداسی چھائی ہے

 فلمی گیت 


سینے میں سُلگتے ہیں ارماں آنکھوں میں اداسی چھائی ہے 

یہ آج تِری دنیا سے ہمیں تقدیر کہاں لے آئی ہے

سینے میں سلگتے ہیں ارماں ۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ آنکھ میں آنسو باقی ہیں جو میرے غم کے ساتھی ہیں 

اب دل ہیں نہ دل کے ارماں ہیں بس میں ہوں مِری تنہائی ہے 

سینے میں سلگتے ہیں ارماں ۔۔۔۔۔۔۔۔

گوری کیوں ہے تو بے کل ترے گھنگھرو ٹوٹ گئے تو کیا

 فلمی گیت 


گوری کیوں ہے تُو بے کل، تِرے گھنگھرو ٹُوٹ گئے تو کیا

ناچ اری تُو بِن پائل، تِرے گھنگھرو ٹوٹ گئے تو کیا


پائل نے کب گیت بکھیرے

اصلی چیز ہیں پاؤں تیرے

تھِرکیں گے جب تیرے پاؤں

بچے گا کوئی شہر نہ گاؤں

احسان میرے دل پہ تمہارا ہے دوستو

 فلمی گیت 


احسان میرے دل پہ تمہارا ہے دوستو 

یہ دل تمہارے پیار کا مارا ہے دوستو


بنتا ہے میرا کام تمہارے ہی کام سے 

ہوتا ہے میرا نام تمہارے ہی نام سے 

تم جیسے مہرباں کا سہارا ہے دوستو

یہ دل تمہارے پیار کا مارا ہے دوستو 

سنگ مر مر سے تراشا ہوا یہ شوخ بدن

 فلمی گیت 


سنگِ مر مر سے تراشا ہوا یہ شوخ بدن

اتنا دلکش ہے کہ اپنانے کو جی چاہتا ہے

سرخ ہونٹوں میں تھرکتی ہے یہ رنگین شراب

جسے پی پی کے بہک جانے کو جی چاہتا ہے

نرم سینے میں دھڑکتے ہیں وہ نازک طوفان

جن کی لہروں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

باعث وصف نظر آگ سی لگ جاتی ہے

 باعثِ وصفِ نظر آگ سی لگ جاتی ہے

عشق کے زیرِ اثر آگ سی لگ جاتی ہے

جن چراغوں کو شبِ وصل بُجھا دیتی ہوں

ان کو با وقتِ سحر آگ سی لگ جاتی ہے

میں وہ سُوکھی ہوئی ٹہنی ہوں جسے پہلو میں

دیکھ کر شاخِ ثمر آگ سی لگ جاتی ہے

محبت کے ہر حبس کا ذائقہ دائمی ہے

 محبت کے ہر حبس کا ذائقہ دائمی ہے

بہت کم تنفس ہوں 

شاید خلا کے کسی کیسری منطقے 

کی بلندی پہ ہوں

میں یہاں تک کسی کُونج کے ساتھ 

اُڑتے ہوئے بےقراری کا 

فکر دیوار و در نہیں کرتا

 فکرِ دیوار و در نہیں کرتا

اب میں تعمیر گھر نہیں کرتا

ربط سب ریت کے گھروندے ہیں

کوئی اب دل میں گھر نہیں کرتا

مور بھی داس ہے اداسی کا

رقص پر کھول کر نہیں کرتا

آپ سمجھیں گے بھلا کیا بے بسی دیوار کی

 آپ سمجھیں گے بھلا کیا بے بسی دیوار کی

آنکھ میں اتری نہیں جب خامشی دیوار کی

درد کے معنی بہت سے آ گئے ادراک میں

گفتگو تفصیل سے ہم نے سنی دیوار کی

ایک دُوجے کو بتاتے ہیں اداسی کا سبب

دوستی قائم ہے میری اور تِری دیوار کی

سرخ یاقوت کاسنی لہجہ

 سرخ یاقوت کاسنی لہجہ

ڈس رہا ہے یہ اجنبی لہجہ

پھر وہی کاٹ تیری باتوں میں

دل میں چُبھتا ہوا وہی لہجہ

اب کڑا ہجر کاٹنا ہو گا

کر رہا ہے یہ مخبری لہجہ

دیکھو ایک نظر مجھ کو

 دیکھو ایک نظر مجھ کو

کر دو گے بہتر مجھ کو

لاج ہے اپنے ہونے کی

ناز ہے خوابوں پر مجھ کو

اے خود کو کھونے والے

ڈھونڈ کہیں جا کر مجھ کو

چہرہ پہ کوئی رنگ شکایت کا نہیں تھا

 چہرہ پہ کوئی رنگ شکایت کا نہیں تھا

لیکن وہ تبسم ہی محبت کا نہیں تھا

چھوڑا بھی مجھے اور بہت خوش بھی رہے ہو

افسوس کے میں آپ کی عادت کا نہیں تھا

وقتوں کے سیاہ رنگ سے ذروں پہ لکھا ہے

دنیا میں کوئی دور شرافت کا نہیں تھا

جانتا کوئی نہِیں آج اصولوں کی زباں

 جانتا کوئی نہِیں آج اصولوں کی زباں

کاش آ جائے ہمیں بولنا پھولوں کی زباں

موسمِ گُل ہے کِھلے آپ کی خوشبو کے گُلاب

بولنا آ کے ذرا پِھر سے وہ جُھولوں کی زباں

یہ رویہ بھی ہمیں شہر کے لوگوں سے ملا

پُھول کے منہ میں رکھی آج ببُولوں کی زباں

نغمگی جیسے کسی ساز کو زندہ کر دے

 نغمگی جیسے کسی ساز کو زندہ کر دے

اک سماعت مِری آواز کو زندہ کر دے

پر شکستہ ہوں مگر جست تو بھر لوں شاید

یہی کوشش مِری پرواز کو زندہ کر دے

ہم اسی عشق کی شمشیر سے گھائل ہیں کہ جو

بعض کو مار دے اور بعض کو زِندہ کر دے

غبار کرب سے چہرہ گلاب کون کرے

 غبارِ کرب سے چہرہ گلاب کون کرے

تلاش رات کے وقت آفتاب کون کرے

کتابِ حُسن کا تحریر باب کون کرے

خِرد، جنوں کا مقرر نصاب کون کرے

دروغِ مصلحت آمیز کی وبا پُھوٹی

مرض یہ عام ہُوا اجتناب کون کرے

نقش بر آب کناروں کے میاں ڈوبتا ہے

 نقشِ بر آب کناروں کے میاں ڈُوبتا ہے

آنکھ سیلاب اٹھائے تو سماں ڈوبتا ہے

مُردہ اجسام تہِ آب نہیں رہ سکتے

ابھی زندہ ہے مِرا دل کہ یہاں ڈوبتا ہے

حکم آیا ہے کہ چڑیاں نہ چہکنے پائیں

یہ چہکتی ہیں تو پھر شورِ سگاں ڈوبتا ہے

Tuesday 27 September 2022

تاروں کی جھمکتی باڑھ تلے آنکھوں میں رات گزاری ہے

 تاروں کی جھمکتی باڑھ تلے آنکھوں میں رات گزاری ہے

اور آٹھ منٹ کی دوری پر سورج کی زرد عمّاری ہے

گردُوں پہ کمندیں ڈال چکے، مہتاب اُچھالا نیزے پر

امکان کی سرحد پار ہوئی، اب آگے کی تیاری ہے

کافوری شمعوں کی لو پر طبلے کی گَت لہراتی ہے

اور نیمۂ شب کے محضر میں سنگت کو اک درباری ہے

شہر میں چھائی ہوئی دیوار تا دیوار تھی

شہر میں چھائی ہوئی دیوار تا دیوار تھی

ایک پتھریلی خموشی پیکرِ گُفتار تھی

بادلوں کی چٹھیاں کیا آئیں دریاؤں کے نام

ہر طرف پانی کی اک چلتی ہوئی دیوار تھی

آرزو تھی سامنے بیٹھے رہیں باتیں کریں

آرزو لیکن بچاری کس قدر لاچار تھی

صد شکر کہ نصیب ہوئے دن بہار کے

 صد شکر کہ نصیب ہوئے دن بہار کے

ہم کو سکوں ملا ہے خزاں کو گزار کے

سہنی پڑیں گی سختیاں صحرائے عشق میں

سنتے ہیں راستے ہیں کٹھن کُوئے یار کے

اس کو جہاں میں اور کہیں کیا سکوں ملے

دیدار ہو سکیں نہ جسے رُوئے یار کے

صنف نازک ہیں ہم

 صنفِ نازک ہیں ہم

غصہ بھی تو آ جاتا ہے

کوئی ہنس کر منا لے تو مان جائیں

ہمارا کیا جاتا ہے

ہم موڈی، ضدی، بد لحاظ

دشت میں اشک فشانی کی نمائش نہیں کی

 دشت میں اشک فشانی کی نمائش نہیں کی

ریت پر بیٹھ کے پانی کی نمائش نہیں کی

وقت ہر چیز کو مٹی میں ملا دیتا ہے

اس لیے ہم نے جوانی کی نمائش نہیں کی

چاند کو گھر سے نکلنے میں جو تاخیر ہوئی

رات نے رات کی رانی کی نمائش نہیں کی

میرے ہر خواب کا پرچار مرے بعد ہوا

 میرے ہر خواب کا پرچار مِرے بعد ہوا

دشت میں وا کوئی بازار مرے بعد ہوا

زرد آفاق پہ بے نقش دھنک کا آنچل

سات رنگوں میں نمودار مرے بعد ہوا

روز مقتل میں بدلنے لگے آئینِ ستم

روزنِ حبس ہوا دار مِرے بعد ہوا

کوئی دم راحت جنوں کے ہاتھ سے پائیں گے کیا

کوئی دم راحت جنوں کے ہاتھ سے پائیں گے کیا

زخم بھر جائیں گے تو ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

تنگ دستی سے میانِ گور تنگ آئیں گے کیا

ہاتھ کو جب کھینچ لیں گے پاؤں پھیلائیں گے کیا

حالِ عاشق ان کو سُننے کا مزا ہے اس قدر

ہم کہے جائیں گے جتنا، وہ کہے جائیں گے کیا

درخت کو جیسے دو لکڑہارے ایک آرے سے کاٹتے ہیں

 التجا


درخت کو جیسے دو لکڑہارے ایک آرے سے کاٹتے ہیں

درخت چاہے گھنا ہو جتنا، بڑا ہو جتنا

مگر یہ دونوں بڑے ہی آرام سے اسے کاٹتے ہیں 

سوچو اگر یہ دو کی بجائے بس ایک ہو تو کیا ہو

کہ ایک کے بس کی بات ہو گی درخت کو کاٹ کر گرانا

زخم دل اچھا ہوا پہلو بدل جانے کے بعد

 زخم دل اچھا ہوا پہلو بدل جانے کے بعد

دل کی دھڑکن مٹ گئی آنسو نکل جانے کے بعد

وعدۂ رنگیں سے ہو گا ہائے کیا خاک اہتمام

آرزو کے پھول چٹکی سے مسل جانے کے بعد

کیا کریں خون طرب کی سرخیٔ افسانہ کو

رنگ و بو کی رائیگاں گھڑیوں کے ٹل جانے کے بعد

محبت میں جو دل خمیدہ رہے ہیں

 محبت میں جو دل خمیدہ رہے ہیں

وہی زندگی میں دمیدہ رہے ہیں

بہت کُھل کے برسے محبت کے بادل

بڑی دیر تک آبدیدہ رہے ہیں

وہی لوگ صحرا دکھائی دئیے کیوں

جو دشتِ جنوں میں نمیدہ رہے ہیں

Monday 26 September 2022

جو ترے در پہ میری جاں آیا

 جو تِرے در پہ میری جاں آیا

مر گیا کہتا؛ میں کہاں آیا

دیکھیں اب کس کا پردہ اٹھے گا

حرفِ شکوہ سرِ زباں آیا

مت اٹھا اس کو سو جہت سے ہائے

در پہ تیرے یہ ناتواں آیا

دل کا آرام پس آہ و فغاں دیکھتا ہے

 دل کا آرام پسِ آہ و فغاں دیکھتا ہے

رُخ بھی یہ قافلۂ نوحہ گراں دیکھتا ہے

وہ مِری پیاس کے شعبوں میں ٹھہرتا ہی نہیں

استخارہ جو کبھی آبِ رواں دیکھتا ہے

میں نے چھانا ہے اسی ڈھنگ سے دشت و صحرا

جیسے رہنے سے کوئی قبل مکاں دیکھتا ہے

عیاں کسی پہ ہمارا یہ حال تھوڑی ہے

 عیاں کسی پہ ہمارا یہ حال تھوڑی ہے

کہا جو ہے، وہی سارا کمال تھوڑی ہے

جو دل کے راز بھی جانے تو سرخرو ٹھہرے

یہاں پہ ایسا کوئی با کمال تھوڑی ہے

ذرا سا درد ملا تو وہ بھاگ کر آیا

محبتیں جو دے اس کو زوال تھوڑی ہے

اجالے رکھ لو مگر تیرگی تو دو گے ناں

 اجالے رکھ لو مگر تیرگی تو دو گے ناں

مجھے خبر ہے مجھے پھر بھی تم کہو گے ناں

کڑا جو وقت پڑا لوگ چھوڑ دیں گے مجھے

کہو کہ تم تو مِرے ساتھ ساتھ ہو گے ناں؟

بجا کہا کہ؛ میں کرتا رہا اداکاری

بجا یہ بات کہ مجھ کو عزِیز ہو گے ناں

یہ دلخراش و اداس صبحیں وبال شامیں عذاب راتیں

 یہ دلخراش و اداس صبحیں, وبال شامیں, عذاب راتیں

جمالِ خوباں، پرانا قصہ، جنوں، محبت، فضول باتیں

دیارِ کلفت کے چارہ گر یہ ستم گرانِ جہاں نما ہیں

یہ گرگ بیٹھے ہیں چلمنوں میں جگہ جگہ پر لگی ہیں گھاتیں

خدا دکھائے گا دن تمہیں جب اٹھائے جاؤ گے مرقدوں سے

زمین اُگلے گی سب دفینے، پھٹیں گی افلاک کی قناتیں

مجھے تم پسند ہو

 ‏مجھے پسند ہے

نومبر کی پہلی بارش

سردی کی خبر دیتی ہوائیں

میرا کمرہ ادھوری شاعری

چائے کا ایک کپ میرا

دوسرا، ہمیشہ کی طرح تمہارا منتظر

لفظ جو بولنا تول کر بولنا

 لفظ جو بولنا تول کر بولنا

فائدے مند ہے مختصر بولنا

تم بھی بن جاؤ لیڈر کسی قوم کے

چاہتے تم ہو زیادہ اگر بولنا

وہ صدائے انا الحق قلندر کی تھی

سب کے بس میں کہاں دار پر بولنا

جب اس کو سوچ کے دیکھا تو یہ کمال ہوا

 جب اس کو سوچ کے دیکھا تو یہ کمال ہوا 

مِری لغت کا ہر اک لفظ بے مثال ہوا 

وہ شہر خواب سے گزرا تو دفعتاً مجھ کو 

حقیقتوں کے بدلنے کا احتمال ہوا 

نمودِ ذات کو پہلے ہی روشنی کم تھی

بڑھے جو سائے تو کچھ اور بھی ملال ہوا

مرزا محمود سرحدی کے منتخب مزاحیہ قطعات

 مرزا محمود سرحدی کے منتخب مزاحیہ قطعات

٭

ہم نے اقبال کا کہا مانا

اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے

جھکنے والوں نے رفعتیں‌ پائیں

ہم خودی کو بلند کر تے رہے

٭

حقیقت کی تجھ کو خبر ہی نہیں ہے

وہ جسم کھلتا گیا مجھ پہ التفات کے ساتھ

 وہ جسم کُھلتا گیا مجھ پہ التفات کے ساتھ

میں چُھو رہا تھا شبِ وصل احتیاط کے ساتھ

یہ اعتدال میرے جسم میں کہاں آیا

تمہیں بھی دل میں رکھا خلفشارِ ذات کے ساتھ

شمار کرنا تھا اشیائے رفتگاں کو مجھے

سو میں نے رکھی اداسی تبرّکات کے ساتھ

پھول بن جاؤں اگر میں تو وہ گلدان بنے

 پھول بن جاؤں اگر میں تو وہ گلدان بنے

میری ہستی ہو صحیفہ تو وہ جزدان بنے

دل کی جنت میں حسیں حور نہ غلمان بنے

" تم بنے بھی تو مِرے درد کی پہچان بنے "

دل میں جو جذبہ ہے وہ فخر کا سامان بنے

تمکنت اس کی بنوں میں وہ مِری شان بنے

خشک ہونٹوں کا کبھی میرے نگہبان بنے

مثال سنگ خیال آئینے میں آتا ہے

 مثالِ سنگ خیال آئینے میں آتا ہے

چٹخنے لگتا ہوں بال آئینے میں آتا ہے

یہ آسماں کہ جُھکا جا رہا ہے دل کی طرف

یہ آئینہ بھی سفال آئینے میں آتا ہے

کبھی چمکتا ہے اک آفتابِ سرشاری

کبھی غبارِ ملال آئینے میں آتا ہے

وہم ہے یا وہ ابھی موجود ہے

 وہم ہے یا وہ ابھی موجود ہے

چُھو کے دیکھو کیا کوئی موجود ہے

سب لُٹا دوں گا شبِ تاریک میں

مجھ میں جتنی روشنی موجود ہے

داستاں میں لطف باقی ہے ابھی

اس میں اب تک اک پری موجود ہے

کسی نے مجھ سے کہا تو چمن میں رہتا ہے

 تلاش محبوب


کسی نے مجھ سے کہا تُو چمن میں رہتا ہے 

گُلوں کی مہکی ہوئی انجمن میں رہتا ہے 

مگر کسی بھی چمن میں تِرا نشاں نہ مِلا 


پتا چلا کہ ہے کنجِ صدف میں تیرا گھر 

مقیم رہتا ہے تو اس میں بن کے آبِ گُہر 

مگر کہیں بھی تِرا بحرِ‌ بیکراں نہ ملا 

زندگی کی شام آئی دیکھو بخت ڈھلتے ہیں

زندگی کی شام آئی دیکھو بخت ڈھلتے ہیں

سارے ہمنوا اٹھے گھر کی اور چلتے ہیں

چاہے جو بھی رُت آئے ساتھ جیسے دُکھ لائے

ہم تمہاری راہوں پر آج تک ٹہلتے ہیں

آہ، تیرے دیوانے ہر قدم پے گرتے ہیں

تیرا نام لیتے ہیں، اور پھر سنبھلتے ہیں

کب تک ملے گی منزل کیا جانے ہم کہاں ہیں

 کب تک ملے گی منزل کیا جانے ہم کہاں ہیں

آگے بھی کارواں ہیں پیچھے بھی کارواں ہیں

ہم اپنی ذات ہی میں عالم کی داستاں ہیں

ہیں مشتِ خاک لیکن تقدیرِ دو جہاں ہیں

ہے ابتدائے الفت، درپیش امتحاں ہیں

دل ہم سے بدگماں ہیں ہم دل سے بدگماں ہیں

محاذ نور سے یکسر ہٹا دئیے گئے ہم

 محاذِ نور سے یکسر ہٹا دئیے گئے ہم

مثالِ شمعِ سحری بُجھا دئیے گئے ہم

سروں کی فصل پہ شاید زکوٰۃ واجب تھی

سو اس نصاب سے اب کے گھٹا دئیے گئے ہم

مکینِ خُلد ہیں ہم بھی نسب کی نسبت سے

زمیں پہ حسبِ مشیت بسا دئیے گئے ہم

آ کے بیٹھے نبی معجزہ ہو گیا

عارفانہ کلام نعتیہ کلام


آ کے بیٹھے نبیؐ، معجزہ ہو گیا

وہ جو سُوکھا شجر تھا، ہرا ہو گیا

گھر سے اقصٰی، سما، سِدرۃ المنتہٰی

طے گھڑی بھر میں ہر فاصلہ ہو گیا

مثلِ سُرمہ لگا جو لعابِ نبیﷺ

عارضہ آنکھ کا پھر، ہوا ہو گیا

Sunday 25 September 2022

یہی نہیں کہ درون کعبہ علی ملے گا

عارفانہ کلام منقبت مولا علیؑ


یہی نہیں کہ درونِ کعبہ علیؑ ملے گا

ہٹے جو معراج کا یہ پردہ علی ملے گا

بتا رہی ہے رجب کی تیرہ علی ملے گا 

زمین والوں سے عرش والا علی ملے

خدا سے ملنا تمہارے بس میں نہیں ہے لیکن 

تمہاری ضد ہے تو آؤ موسیٰؑ! علی ملے گا 

جونہی اس حسن فسوں خیز پہ تنقید بڑھی

 جونہی اس حسنِ فسوں خیز پہ تنقید بڑھی 

میرا آواز اٹھانا تھا کہ تائید بڑھی 

بے سبب آنکھ لپکتی نہیں منظر کی طرف

پھول نے رنگ جمایا تو مِری دِید بڑھی  

مجتہد کون ہوا؟ دِینِ محبت میں یہاں 

پائے تحقیق اٹھانے سے بھی تقلید بڑھی 

ہم نے خیالِ سختئ جادہ نہیں کیا

 ہم نے خیالِ سختئ جادہ نہیں کیا

ترکِ سفر کا کوئی ارادہ نہیں کیا

عشّاقِ عہدِ نِو نے سرِ رہگزارِ شوق

گردِ سفر کو تن کا لبادہ نہیں کیا

ہم نے بھی لوٹ آنے میں تاخیر کی بہت

اس نے بھی انتظار زیادہ نہیں کیا

موسم لا جواب آیا ہے

 موسم لا جواب آیا ہے

میرے خط کا جواب آیا ہے

کھو نہ دیں ہوش دیکھنے والے

اس پہ ایسا شباب آیا ہے

شہر احساس کتنا ویراں ہے

دور ایسا خراب آیا ہے

تیری دنیا میں چار دن ہوں میں

 تیری دنیا میں چار دن ہوں میں

اس لیے بھی تو مطمئن ہوں میں

اِکتفا کرنا ہو گا تھوڑے پر

ایک مزدور کا ٹِفن ہوں میں

شاید اک رِشتہ پاس لائے ہمیں

ویسے تو دور کا کزن ہوں میں

میں نے مانا جو کہتے ہو تم بھی ناں

 میں نے مانا جو کہتے ہو، تم بھی ناں

میں جُھوٹا ہوں تم سچے ہو، تم بھی ناں

خود ہی اپنا ہجر اتارا تم نے مجھ میں

اب کہتے ہو؛ تم کیسے ہو، تم بھی ناں

پہلے روشن کر دیتے ہو میرے ہاتھ

اور پھر ہاتھ چُھڑا لیتے ہو، تم بھی ناں

تخت کوئی الٹ بھی سکتا ہے

 یاد دہانی


آپ اچھے ہیں اس لیے اکثر

سب پہ اچھا گمان رکھتے ہیں

بات لیکن یہ ذہن میں رکھیں

سب اچانک پلٹ بھی سکتا ہے

وقت پڑنے پہ خوش گمانی کا

تخت کوئی الٹ بھی سکتا ہے

گو سدا خود کو قلندر دیکھا

 گو سدا خود کو قلندر دیکھا

آج اپنے میں سکندر دیکھا

اس کی چاہت کا کرشمہ ہے یہ

ہر بیاباں کو سمندر دیکھا

کون کہتا ہے اسے باغِ خلیل

جائسی نے جو بس اندر دیکھا

سائے کی واردات سے حیران تو نہیں

 سائے کی واردات سے حیران تو نہیں

یہ دُھوپ اپنے آپ سے انجان تو نہیں

لازم ہے اس بدن سے تحیّر کشید ہو

اس حُسن کا بیان یہ مُسکان تو نہیں

آئے گا جلد ہجر کی تحویل میں وہ شخص 

خواہش ہے میری ظاہری امکان تو نہیں

جنہیں بچھڑے زمانے ہو گئے ہیں

 جنہیں بچھڑے زمانے ہو گئے ہیں

کسی کی جستجو میں کھو گئے ہیں

انہیں کی چھاؤں میں دن کاٹتا ہوں

وہ کشتِ دل میں یادیں بو گئے ہیں

بسائیں گے تمنّا کے خرابے

کہ شہرِ آرزو سے تو گئے ہیں

گو تہ حلقۂ زنجیر نہیں ہوتے تھے

 گو تہِ حلقۂ زنجیر نہیں ہوتے تھے

تم مگر صاحب شمشیر نہیں ہوتے تھے

اس زمانے میں تِرا رنج کسے جانتا تھا

جس زمانے میں تقی میر نہیں ہوتے تھے

خواب میں رکھ دیا کرتے تھے گھروں کی بنیاد

اور وہ گھر کبھی تعمیر نہیں ہوتے تھے

وہ اتنی میٹھی سریلی آواز میں کویتا سنا رہی تھی

 وہ اتنی میٹھی سریلی آواز میں کویتا سنا رہی تھی

کہ آنکھ ملتے ہوئے رات ستاروں کو پھر سے بلا رہی تھی

عجیب یادوں کا یہ اثر تھا کہ خودکشی کر رہی تھیں نیندیں

بکھرتی تعبیریں جوڑنے میں وہ چاندنیاں بجھا رہی تھی

میں ذائقوں کی حدوں سے آگے نکل کے بے ذائقہ ہوا تھا

وہ جب محبت سے میری راتوں کو جگا رہی تھی سُلا رہی تھی

زخم سینے کا پھر ابھر آیا

 زخم سینے کا پھر ابھر آیا

یاد بھر کوئی چارہ گر آیا

مجھ کو بخشی خدا نے اک بیٹی

چاند آنگن میں اک اتر آیا

خوش نصیبوں کو گھر ملا یارو

میرے حصے میں پھر سفر آیا

ہو گیا ہے خون ٹھنڈا آگ دو

 ہو گیا ہے خون ٹھنڈا آگ دو

ایک تازہ ایک زندہ آگ دو

لمحہ لمحہ کانپتا ہے میرا دل

رات کالی خوف گہرا آگ دو

سانس لینا کس قدر دشوار ہے

منجمد ہے میرا سینہ آگ دو

خوب تھی وہ گھڑی کہ جب دونوں تھے اک حصار میں

 خوب تھی وہ گھڑی کہ جب دونوں تھے اک حصار میں

میں تھا تِرے خمار میں، تُو تھا مِرے خمار میں

نور سے میرے عشق کے نکھرے تھے اس کے خد و خال

رنگ تھا میرے خواب کا عکسِ جمالِ یار میں

گو تھی کشش ہمارے بیچ، بارے بہم نہ ہو سکے

میں تھا الگ مدار میں، وہ تھا الگ مدار میں

بھری بزم میں گل فشاں اور بھی ہیں

 بھری بزم میں گل فشاں اور بھی ہیں

ہمارے سوا نکتہ داں اور بھی ہیں

یہ دنیا تو مٹ جانے والی ہے، لیکن

زمیں اور بھی، آسماں اور بھی ہیں

یہ دنیا تو اک ذرۂ مختصر ہے

مکیں اور بھی ہیں مکاں اور بھی ہیں

زخموں کو سبز پات سے ڈھکنا پڑا مجھے

 زخموں کو سبز پات سے ڈھکنا پڑا مجھے

تھوڑا سا پھر نمک بھی چھڑکنا پڑا مجھے

ہجرت سے پنچھیوں کی اداسی تھی پیڑ کو

سائے میں اس کے جا کے چہکنا پڑا مجھے

اندر تھی جس قدر بھی اماوس کی تیرگی

باہر سے چاند بن کے چمکنا پڑا مجھے

ہوا کے تخت پہ ہوں آسماں کا آدمی ہوں

 ہوا کے تخت پہ ہوں آسماں کا آدمی ہوں

میں خاک زاد رہِ کہکشاں کا آدمی ہوں

یہ میرے پر مجھے اونچا اڑا رہے ہیں بہت

زمین پوچھتی ہے میں کہاں کا آدمی ہوں؟

مِرے گلاب نہیں خواب جھڑنے والے ہیں

خزاں کا پیڑ نہیں، میں خزاں کا آدمی ہوں

عشاق بھی کیا نت نئے آزار خریدیں

 عشّاق بھی کیا نِت نئے آزار خریدیں

اک غم کی ضرورت ہو تو بازار خریدیں

آباد ہے شہروں سے تو ویرانہ ہمارا

دو دن کے لیے کیا در و دیوار خریدیں

دستار کو جو ڈھال سمجھتے ہیں وہ سمجھیں

سر جن کو بچانا ہے وہ تلوار خریدیں

بلند آہنگ اور پر شور ہو کے گزرے

 بلند آہنگ اور پُر شور ہو کے گزرے

شکست سے انحراف کا زور ہو کے گزرے

بس ایک لمسِ تپش سے بخشی لپک سروں کو

تمہارے نغمات سے بس اک پور ہو کے گزرے

کریہہ موسم،۔ کرخت آوازیں،۔ کالے منظر

خود اپنے جنگل سے ہم بہت بور ہو کے گزرے

میں تو کہتی ہوں کہ یہ کام ہی بیہودہ ہے

 میں تو کہتی ہوں کہ یہ کام ہی بیہودہ ہے

دامنِ عشق اگر حِرص سے آلودہ ہے

جو بھی آتا ہے یہاں وہ یہیں کھو جاتا ہے

میرا کوچہ بھی مِرے شہر میں برمودہ ہے

کوئی ماضی نہیں میرا، نہ کوئی مستقبل

میں وجودی ہوں مِرا وقت بھی موجودہ ہے

Saturday 24 September 2022

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

 قوالی


ہمیں تو لُوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے

ہمیں تو لوٹ لیا مل کے حسن والوں نے

کالے کالے بالوں نے گورے گورے گالوں نے


نظر میں شوخیاں اور بچپنا شرارت میں

ادائیں دیکھ کے ہم پھنس گئے محبت میں

او ننھے سے فرشتے تجھ سے یہ کیسا ناتا

 فلمی گیت 


او ننھے سے فرشتے، تجھ سے یہ کیسا ناتا

کیسے یہ دل کے رشتے

او ننھے سے فرشتے

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو


تجھے دیکھنے کو ترسیں کیوں ہر گھڑی نگاہیں

بے چین سی رہتی ہیں، تیرے لیے یہ بانہیں

یہ دعویٰ آج دنیا بھر سے منوانے کی خاطر آ

 فلمی گیت 


یہ دعویٰ آج دنیا بھر سے منوانے کی خاطر آ

یہ دیوانے کی ضد ہے اپنے دیوانے کی خاطر آ


تیرے در سے میں خالی لوٹ جاؤں کیا قیامت ہے

تُو میری روح کا کعبہ، میری جانِ عبادت ہے

جبینِ شوق کے سجدوں کو اپنانے کی خاطر آ

یہ دیوانے کی ضد ہے اپنے دیوانے کی خاطر آ

او جانے والے میں تیرے قربان خدا حافظ

 گیت


او جانے والے میں تیرے قربان خدا حافظ

او میرے حسیں خوابوں کے مہمان خدا حافظ

او میرے جانان خدا حافظ


جائے گا جہاں سایہ میرا ساتھ رہے گا

ہر پل میرے ہونٹوں پہ تیرا نام رہے گا

میں پیار پہ تیرے، میرا ایمان خدا حافظ

وہ شوخ انتقام کا خوگر نہیں رہا

 وہ شوخ انتقام کا خُوگر نہیں رہا

شیشہ گروں کے شہر میں پتھر نہیں رہا

بے اختیاری جلوۂ بت خانہ کی نہ پوچھ

شکرِ خدا، کہ شہر میں آزر نہیں رہا

کیا تیغ ڈگمگاتی تھی قاتل کے ہاتھ میں

اور اس کے آستین میں بھی خنجر نہیں رہا

ردی نہ سمجھ لینا مجھے خواہش رد میں

 ردی نہ سمجھ لینا مجھے خواہشِ رد میں

ہاں مجھ کو اڑا سکتے ہو اسراف کی مد میں

بستر پہ پڑے ملتے ہیں ٹکڑے مِرے تن کے 

ہر رات میں آ جاتی ہوں اک خواب کی زد میں

ہر موڑ پہ کٹتا ہے مِری زیست کا چالان

رہتی ہی نہیں یہ کبھی رفتار کی حد میں

سفر تھا تھوڑا مگر کتنے موڑ آئے تھے

 سفر تھا تھوڑا مگر کتنے موڑ آئے تھے

کئی کہانیاں ہم ان میں چھوڑ آئے تھے

میں ان پرندوں کو روتا ہوں جو فلک کے لیے

زمیں سے اپنا تعلق ہی توڑ آئے تھے

سوال سُوکھے ہوئے آنسوؤں کا اُلجھا رہا

حساب ویسے تو ہم سارا جوڑ آئے تھے

پھیلتے سائے اداسی ناگہانی شام کی

 پھیلتے سائے، اداسی، ناگہانی شام کی

آنکھ نے محفوظ کر لی رائیگانی شام کی

آؤ دیکھیں کس طرح کا روپ دھارے گا اُفق

آؤ، صورت دیکھ آئیں آسمانی شام کی 

ننگے سر چلتی رہی ہیں یاں نبیؐ کی بیٹیاں

خونی شبدوں میں ہی لکھنا تم کہانی شام کی 

یہ اور بات ہے بدنامیوں کے گھر میں رہا

 یہ اور بات ہے بدنامیوں کے گھر میں رہا

یہی بہت ہے کہ میں آپ کی نظر میں رہا

نہ راستوں کا پتہ تھا، نہ منزلیں معلوم

سفر تمام ہوا، اور میں سفر میں رہا

کسی کی زلف کا سایہ کہاں نصیب ہوا

تمام عمر سُلگتی سی دوپہر میں رہا

کھڑکی دریچے بام و غرفے سب کر گئے اندھیارے چاند

 کھڑکی دریچے بام و غرفے سب کر گئے اندھیارے چاند

ہجرِ اُفق میں کالے پڑ گئے اندر اندر سارے چاند

شام تو شہرِ دل میں ہوتی رہتی ہے معمول کے ساتھ

لیکن وہ معمول کہ جس میں ملتے نہیں ہیں تارے چاند

اک سرحد پہ صرف شبِ تنہائی کا میلہ لگتا ہے

اس میلے میں ہِجرت کر کے آتے ہیں دُکھیارے چاند

سینے سے کھینچ کے دل ہاتھ میں لے آئے ہیں

 سینے سے کھینچ کے دل ہاتھ میں لے آئے ہیں 

یعنی، مرکز کو مضافات میں لے آئے ہیں 

آرزو لائے ہیں یوں مجمعِ آلام میں ہم 

اک پری جیسے کہ جنّات میں لے آئے ہیں 

جان خمیازہ ہے عُجلت کا یہ سُن لیں منصور 

حرفِ آخر تو شروعات میں لے آئے ہیں 

تمہاری ہنسی کی قسم

 لا لکھ رہے ہیں

 

تمہاری ہنسی کی قسم

اتنے موتی کبھی کانچ کے پانیوں

جیسے شفاف برتن میں

کم کم گرے ہوں گے

یہ کھنکھناہٹ الوہی غنا کی

عشق بھڑکی ہوئی آتش ہے تو پھر جانے دو

 عشق بھڑکی ہوئی آتش ہے تو پھر جانے دو

پھر بھی جب دونوں کی خواہش ہے تو پھر جانے دو

چاند کو عشق نہیں دھرتی سے، مجبوری ہے؟

ایک سیّارے کی گردش ہے، تو پھر جانے دو

روز ڈے پر جو مجھے گُل سے نوازا تم نے

صرف رسماً ہی اگر وِش ہے، تو پھر جانے دو

ہجر ہے یاس ہے وحشت کا سماں ہے میں ہوں

 ہجر ہے، یاس ہے، وحشت کا سماں ہے میں ہوں

عمر ٹہرے ہوئے موسم میں رواں ہے، میں ہوں

میرے دامن میں جو گنجینۂ گُل ہے، تُو ہے

تیرے دامن میں جو اک برگِ خزاں ہے، میں ہوں

از زمیں تا بہ فلک رات کا سنّاٹا ہے

ایسے عالم میں جو یہ شورِ فُغاں ہے، میں ہوں

تمام عمر کٹی سیڑھیاں بنانے میں

 تمام عمر کٹی سیڑھیاں بنانے میں

فلک سے آنے میں، واپس فلک پہ جانے میں

ہمیشہ لکھتے ہیں مِل کر ہی پیار کے نغمے

مگر جِھجکتے ہیں اک ساتھ ان کو گانے میں

مسافروں نے تو مشکیزے کر لیے خالی

کسی شجر میں لگی آگ کو بُجھانے میں

ماں تو نے کچھ کہا ہوتا پوچھ ہی لیا ہوتا

 راضی نامہ کی بھینٹ چڑھتی ہوئی لڑکی


ماں

تُو نے کچھ کہا ہوتا

پوچھ ہی لیا ہوتا

بھیڑئیے ہیں وہ سارے

دیکھ ہی لیا ہوتا

دلوں سے درد دعا سے اثر نکلتا ہے

 دلوں سے درد، دعا سے اثر نکلتا ہے

یہ کس بہشت کی جانب بشر نکلتا ہے

پڑا ہے شہر میں چاندی کے برتنوں کا رواج

سو اس عذاب سے اب کوزہ گر نکلتا ہے

میاں! یہ چادرِ شہرت تم اپنے پاس رکھو

کہ اس سے پاؤں جو ڈھانپیں تو سر نکلتا ہے

تمہارا عکس ہیں اور آئینے میں ہم نہیں ہیں

 تمہارا عکس ہیں اور آئینے میں ہم نہیں ہیں

تمام یہ کہ کسی ماجرے میں ہم نہیں ہیں

یہاں سے راستہ پُر پیچ ہے نہ خار بھرا

یہیں سے چلتے ہیں اب راستے میں ہم نہیں ہیں

یہاں تو میر بھی ہیں، پیر بھی، اسیر بھی ہیں

تمام لوگ ہیں پر قافلے میں ہم نہیں ہیں

کوئی منصب نہ خزانہ نہ جزا چاہتی ہے

 کوئی منصب نہ خزانہ نہ جزا چاہتی ہے

یہ محبت تو فقط اس کی رضا چاہتی ہے

کچھ سروکار نہیں اس سے کہ کب کون مَرا

"روز اِک تازہ خبر خلقِ خدا چاہتی ہے”

لاکھ بے درد بنی پھرتی ہو دنیا یہ، مگر

مجھ سے ہر حال میں پھر بھی یہ وفا چاہتی ہے

لیکن کل شام سے کچھ اشعار نے یوں انگڑائی لی

 لیکن کل شام سے کچھ اشعار نے 

یوں انگڑائی لی کہ

بحرِ رومانس کی مجنمد لہروں نے بھی

اضطرابی زاویوں کی طرف سفرِ نمو کیا

تازہ ترین غزل لکھ کر تو مجھے یوں لگ رہا ہے کہ

آنگنِ خیال میں جیسے بہار عود آئی ہو

کسی سے راز محبت چھپا نہیں سکتے

 کسی سے رازِ محبت چھپا نہیں سکتے

تِرے نقوش کو دل سے مٹا نہیں سکتے

شجر ببول کا جس خاک میں نکل آئے 

گلاب اس پہ کبھی ہم کھلا نہیں سکتے

تمہارا نام ہے لکھا یوں دل کی تختی پر

کبھی جو چاہیں مٹانا، مٹا نہیں سکتے

جھیل آنکھوں میں محبت کے کنول ہوتے ہیں

 جھیل آنکھوں میں محبت کے کنول ہوتے ہیں

دل میں اتریں تو یہ عنوان غزل ہوتے ہیں

ایسا لگتا ہے کہ ہے کچے مکانوں کی زکوٰۃ

جن سے تعمیر یہاں قصر و محل ہوتے ہیں

کوئی عارف ہو تو یہ راز سمجھ سکتا ہے

سامنے آتے ہیں جس آج میں کل ہوتے ہیں

بہت مضبوط لوگوں کو بھی غربت توڑ دیتی ہے

 بہت مضبوط لوگوں کو بھی غربت توڑ دیتی ہے

انا کے سب حصاروں کو ضرورت توڑ دیتی ہے

جھکایا جا نہیں سکتا جنہیں جبر و عداوت سے

انہیں بھی اک اشارے میں محبت توڑ دیتی ہے

کسی کے سامنے جب ہاتھ پھیلاتی ہے مجبوری

تو اس مجبور کو اندر سے غیرت توڑ دیتی ہے

دیواروں کا گریہ ہو یا ویرانی کی دھار گرے

 دیواروں کا گریہ ہو یا ویرانی کی دھار گرے 

سارے غم جی اٹھتے ہیں جب بارش کی جھنکار گرے 

پتوں کا گرنا ہے ایسے موسم کی بربادی پر

جیسے میرے ہمسائے میں روز کوئی دیوار گرے

پانی پانی ہو جاتے ہیں آنکھوں میں سارے منظر

دھوپ کی سلطانی میں جیسے بادل کی تلوار گرے

راز ہائے فنا و بقا کی امیں

 مرثیہ سے اقتباس


راز ہائے فنا و بقا کی امیں

خاتمِ موت پر زندگی کا نگین

با ادب، با ادب، میرے دل کی تڑپ

دیکھ پھر دیکھ، اے میری چشمِ یقین

حق کی آیات بکھری ہوئی ہیں یہاں

عرشِ اعظم کے تارے ہیں ذرے نہیں

سردار کائنات ہی سلطان نعت ہے

 عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


سردارِ کائناتﷺ ہی سلطانِ نعت ہے

پڑھ لو درودِ عشق یہی جانِ نعت ہے

بادل کا ٹکڑا سایہ کرے مجھ پہ بھی حضورؐ

پھر میں بھی کہہ سکوں گی یہ فیضانِ نعت ہے

کیا حقِ بندگی ہو ادا ان حروف سے

محبوب کی ثنا میں تو قرآنِ نعت ہے

کون طیبہ سے انحراف کرے

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کون طیبہ سے انحراف کرے

توبہ، توبہ، خدا معاف کرے

چاند کو چار چاند لگ جائیں

انؐ کے چہرے کا گر طواف کرے

پھر ثنائے نبیﷺ کی رم جھم ہو

دل تخیل میں اعتکاف کرے

علم کی منزل معراج ہے عرفان رسول

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


اقتباس از نعت و منقبت علم کی منزل معراج ہے عرفان رسولﷺ


علم کی منزلِ معراج ہے عرفانِ رسولﷺ

عقل کا حق سے تعلق ہے بعنوانِ رسولﷺ

مکتبِ معرفتِ رب ہے دبستانِ رسولﷺ

شانِ تخلیق کا مظہر ہے زہے شانِ رسولﷺ

حاصل ہے دل کو الفت پیغمبر خدا

  عارفانہ کلام نعتیہ کلام


حاصل ہے دل کو الفتِ پیغمبرِﷺ خدا

یہ بھی ہے ایک رحمتِ پیغمبرِﷺ خدا

دو طفل مُردہ کر دئیے زندہ حضورؐ نے

معجز نما ہے دعوتِ پیغمبرِﷺ خدا

ہو گی ضرور امتِ سرور مقیمِ خلد

مقبول ہے شفاعتِ پیغمبرِﷺ خدا

یا رسول اللہ تیرے در کی فضاؤں کو سلام

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


یا رسول اللّٰہﷺ تیرے در کی فضاؤں کو سلام

گنبدِ خضرا کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں کو سلام

والہانہ جو طوافِ روضۂ اقدس کریں

مست و بے خود وجد کرتی ان ہواؤں کو سلام

شہرِ بطحا کے در و دیوار پہ لاکھوں درودﷺ

زیرِ سایہ رہنے والوں کی صداؤں کو سلام

ہر صاحب یقیں کا ایمان بن گئے ہیں

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


ہر صاحبِ یقیں کا ایمان بن گئے ہیں

قولِ نبیﷺ دلیلِ قرآن بن گئے ہیں

تعلیمِ مصطفیٰﷺ نے ایسا شعور بخشا

جو آدمی نہیں تھے، انسان بن گئے ہیں

آدم سے تا بہ عیسیٰ، عیسیٰ سے مصطفیٰؐ تک

اک داستان کے کتنے عنوان بن گئے ہیں

Friday 23 September 2022

درود پڑھتے ہی یہ کیسی روشنی ہوئی ہے

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے

درود پڑھتے ہی یہ کیسی روشنی ہوئی ہے

میں بس یونہی تو نہیں آ گیا ہوں محفل میں

کہیں سے اِذن مِلا ہے تو حاضری ہوئی ہے

جہانِ کُن سے ادھر کیا تھا، کون جانتا ہے

مگر وہ نُور کہ جس سے یہ زندگی ہوئی ہے

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا

کچھ نہیں سُوجھتا جب پیاس کی شدت سے مجھے

چھلک اٹھتا ہے میری روح میں مینا تیرا

پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم

مجھ کو جُھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

یہ نہیں کثرت آلام سے جل جاتے ہیں

 یہ نہیں, کثرتِ آلام سے جل جاتے ہیں

دل تمنائے خوش انجام سے جل جاتے ہیں

ان سے پوچھے کوئی مفہومِ حیاتِ انساں

مقبروں میں جو دِیے شام سے جل جاتے ہیں

ذکر آتا ہے مِرا اہلِ محبت میں اگر

میرے احباب مِرے نام سے جل جاتے ہیں

کر کے ساری حدوں کو پار چلا

 کر کے ساری حدوں کو پار چلا

آج پھر سے میں کوئے یار چلا

اس نے وعدہ کیا تھا ملنے کا

کر کے اس پر میں اعتبار چلا

جانے کیا بات اس میں ایسی تھی

اس کی جانب جو بار بار چلا

میں تمہیں بس فقط ایک بار دیکھنا چاہتا ہوں

 میں تمہیں بس فقط ایک بار

ساتھ لے جا کر اہرامِ مصر کے سائے میں

دیکھنا چاہتا ہوں

میں چاہتا ہوں

تمہیں خداؤں کا اختتام محسوس ہو 


اسرار احمد لکوی

تصویروں میں ابر بنایا جا سکتا ہے

 تصویروں میں ابر بنایا جا سکتا ہے

اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

دیکھنے والی آنکھیں دھوکہ کھا سکتی ہیں

سننے والوں کو سمجھایا جا سکتا ہے

اک درویش کے جانے سے معلوم ہوا

دیواروں سے آیا جایا جا سکتا ہے

ہر نفس منت کش آلام ہے

 ہر نفس منت کشِ آلام ہے

زندگی شاید اسی کا نام ہے

ایک آنسو اور وہ بھی صرف ضبط

کیا یہی امید کا انجام ہے

سرگزشتِ عشق افسانہ نہیں

زینتِ عنوان تیرا نام ہے

محبت وہ کہانی ہے ہمیشہ یاد رہتی ہے

 محبت وہ کہانی ہے 

کہ جتنا بھی کوئی بھولے

ہمیشہ یاد رہتی ہے


سباس گل کے افسانے سے اقتباس

دور سے کیا مسکرا کر دیکھنا

 دور سے کیا مسکرا کر دیکھنا

دل کا عالم دل میں آ کر دیکھنا

خود کو گر پہچاننا چاہو کبھی

مجھ کو آئینہ بنا کر دیکھنا

قد کا اندازہ تمہیں ہو جائے گا

اپنے سائے کو گھٹا کر دیکھنا

اضطراب زندگی سے با خبر ہو جائیے

 اضطرابِ زندگی سے با خبر ہو جائیے

اپنی ہستی کے لیے خود راہبر ہو جائیے

موسم گل میں کہیں جب گل کوئی لہرا اٹھے

گلستاں میں آپ شاخِ معتبر ہو جائیے

اڑ نہیں سکتے پروں سے جو پرندے آجکل

رہبرانِ وقت ان کے بال و پر ہو جائیے

ہر ایک شخص کے وجدان سے خطاب کرے

 ہر ایک شخص کے وجدان سے خطاب کرے

نئے لباس کی خواہش نیا بدن ڈھونڈے

سمندروں میں اترتے چلے گئے، لیکن

کثافتوں کے جراثیم ساتھ ساتھ رہے

نہ جانے کون غم کائنات سے چھپ کر

مِرے وجود میں بیٹھا ہے کنڈلی مارے

چاہ کر ہم اس پری رو کو جو دیوانے ہوئے

 چاہ کر ہم اس پری رو کو جو دیوانے ہوئے

دوست دشمن ہو گئے اور اپنے بیگانے ہوئے

پھر نئے سر سے یہ جی میں ہے کہ دل کو ڈھونڈئیے

خاک کوچے کی تِرے مدت ہوئی چھانے ہوئے

تھا جہاں مے خانہ برپا اس جگہ مسجد بنی

ٹوٹ کر مسجد کو پھر دیکھا تو بت خانے ہوئے

مدتوں دیکھ لیا چپ رہ کے

 مدتوں دیکھ لیا چپ رہ کے

آؤ کچھ ان سے بھی دیکھیں کہہ کے

اس تغافل پہ بھی اللہ اللہ

یاد آتا ہے کوئی رہ رہ کے

ہے روانی کی بھی حد اک آخر

موج جائے گی کہاں تک بہہ کے

یار کے تیر کا نشانہ ہوں

 یار کے تیر کا نشانہ ہوں

اپنے طالع کا میں دِوانا ہوں

ناتوانی بھی دیکھ کر مجھ کو

لگی رونے، میں وہ توانا ہوں

دیکھ دیکھ اس کی زلفِ ابتر کو

دل یہی چاہتا ہے، شانہ ہوں

دیکھ اے عرش پر لگی ہوئی آنکھ

 دیکھ اے عرش پر لگی ہوئی آنکھ

تھک گئی تیری سمت اُٹھی ہوئی آنکھ

اب مناظر بدلنے والے ہیں

اب اُدھڑنے لگی ہے سی ہوئی آنکھ

صرف چند ایک رنگ جانتی تھی

دستِ تہذیب کی چُھوئی ہوئی آنکھ

جھیل سکتے نہیں اب ہوا معذرت

 جھیل سکتے نہیں اب ہوا معذرت

سب چراغوں نے مل کر کہا معذرت

درد کی انتہا تک مجھے لے گیا

اور ہولے سے پھر کہہ گیا؛ معذرت

کہہ رہا ہے؛ دعا کر محبت ملے

تجھ کو دوں گا نہیں بد دعا معذرت

کوئی خیال و خواب نہیں ہے قرین دل

 کوئی خیال و خواب نہیں ہے قرینِ دل

بنجر سی ہو گئی ہے مری سرزمینِ دل

کوئی مجاہدہ ہے نہ کوئی مشاہدہ

اک منتظر سکوت ہوا ہے مکینِ دل

مہمان تھا، چلا گیا، جانا ہی تھا اسے

اک یاد رہ گئی سو ہوئی ہمنشینِ دل

زمین عشق پہ اے ابر اعتبار برس

 زمینِ عشق پہ اے ابرِ اعتبار برس

وصالِ یار کا بہہ جائے انتظار برس

شرابِ شوق کہیں مجھ کو کر نہ دے مدہوش

تِری تری سے اتر جائے یہ خمار برس

مِرے حبیب کو دے دوں وفا کا اک موتی

کھلا ہے دل کا صدف، آ بس ایک بار برس

بے وفا ہو نہ با وفا ہو تم

 بے وفا ہو نہ با وفا ہو تم

ہم سمجھتے ہیں بسکہ کیا ہو تم

تم نہ دریا ہو اور نہ پانی ہو

صرف پانی کا بلبلہ ہو تم

جیسے مٹی سے بن کے آئے ہو

اسی مٹی کی پھر غذا ہو تم

دل و نظر میں ترے روپ کو بساتا ہوا

 دل و نظر میں تِرے روپ کو بساتا ہوا

تِری گلی سے گزرتا ہوں جگمگاتا ہوا

غزل کے پھول مِرے ذہن میں مہکتے ہوئے

تِرا خیال مجھے رات بھر جگاتا ہوا

وہ بارگاہِ ادب ہے عقیدتوں کی جگہ

میں اس گلی سے کیوں گزروں گا خاک اڑاتا ہوا

بے خود ایسا کیا خوف شب تنہائی نے

 بے خود ایسا کیا خوفِ شبِ تنہائی نے

صبح سے شمع جلا دی تِرے سودائی نے

حسبِ منشا دلِ پُر شوق کی باتوں کا جواب

دے دیا شرم میں ڈوبی ہوئی انگڑائی نے

ہو کا عالم ہوا اس سمت کو اڑنے لگی خاک

جس طرف غور سے دیکھا تِرے سودائی نے

خاک زادے خاک میں یا خاک پر ہیں آج بھی

 خاک زادے خاک میں یا خاک پر ہیں آج بھی

سامنے اک کوزہ گر کے چاک پر ہیں آج بھی

یہ نہ جانا کس طرف سے آئی چنگاری مگر

تہمتیں ساری خس و خاشاک پر ہیں آج بھی

جس تکبر کی بدولت چھن گئے ان کے حقوق

اس کے اثراتِ رعونت ناک پر ہیں آج بھی

سبز ہے نور بھی حصار بھی سبز

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


سبز ہے نور بھی حِصار بھی سبز

آپﷺ کے شہر کا غبار بھی سبز

معجزہ ہے یہ آپﷺ کی ضَو کا 

ہو گیا سارا ریگزار بھی سبز

شوقِ دیدارﷺ میں مہکتے ہوئے

پھول تو پھول، سارے خار بھی سبز

نظارے ہیں گو لاکھوں جہاں بھر کے نظر میں

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


نظارے ہیں گو لاکھوں جہاں بھر کے نظر میں

ہے کیف مگر اور مدینے کے سفر میں

اے صاحبِ لو لاکؐ تِری بھیک کی خاطر

بیٹھے ہیں شہنشاہ تِری راہ گزر میں

اے گنبد خضرا تِرے انوار پہ قرباں

کچھ فرق نظر آتا نہیں شام و سحر میں

وہی ابد کے دیے ہیں وہی ازل کے چراغ

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


وہی ابد کے دِیے ہیں وہی ازل کے چراغ

جلائے ہیں مِرے آقاؐ نے جو عمل کے چراغ

ہمیں شعور مسلسل حیات کا دے کر

حضورؐ آپ نے گل کر دئیے اجل کے چراغ

جلے تو آپؐ کی سیرت کے ہی چراغ جلے

جلائے ہم نے بہت سے بدل بدل کے چراغ

Thursday 22 September 2022

قطرہ مانگے جو کوئی تو اسے دریا دے دے

 عارفانہ کلام حمدیہ و نعتیہ کلام


قطرہ مانگے جو کوئی، تُو اسے دریا دے دے

مجھ کو کچھ اور نہ دے، اپنیؐ تمنا دے دے

میں تو تجھؐ سے فقط اک نقشِ کفِ پا چاہوں

تُوؐ جو چاہے تو مجھے جنتِ ماویٰ دے دے

وہ جو آسودگی چاہیں، انہیں آسودہ کر

بے قراری کی لطافت، مجھے تنہا دے دے

ملتا ہے کیا نماز میں سجدے میں جا کے دیکھ

 قوالی عارفانہ کلام


اللہ کے حضور میں سر کو جھکا کے دیکھ

ملتا ہے کیا نماز میں، سجدے میں جا کے دیکھ


وہ خوش نصیب ہے، جسے منظور ہے نماز

مومن کی پاک روح کا ایک نور ہے نماز

شیطان کی پہنچ سے بہت دور ہے نماز

دل کو خدا کی یاد کا مسکن بنا کے دیکھ

میرا دل چاہتا ہے زندگی خواب میں گزر جائے

 حسرت


میرا دل چاہتا ہے 

زندگی خواب میں گزر جائے

ایسا خواب

جس میں تم میرے ساتھ ہو

اور جب آنکھ کھلے

شاعروں کے نہ درمیاں ہوتا

 شاعروں کے نہ درمیاں ہوتا

رب نہ گر مجھ پہ مہرباں ہوتا

کر دے جس کو ضعیف ہجر کا روگ

پھر وہ بوڑھا نہیں جواں ہوتا

ہائے حسرت کہ میرے سب احباب

دائیں بائیں، میں درمیاں ہوتا

وفا کی راہ میں گل ہی نہیں ہے خار بھی ہے

 وفا کی راہ میں گل ہی نہیں ہے خار بھی ہے

یہ جرم وہ ہے کہ پاداش اس کی دار بھی ہے

سنبھل کے آ مرے ہمدم کہ راہ عشق و وفا

مقام سجدہ بھی میدان کارزار بھی ہے

مرے خدا تری رحمت کی آس رکھتا ہے

ترا یہ بندہ کہ خاطی بھی شرمسار بھی ہے

ہیں سارے جرم جب اپنے حساب میں لکھنا

 ہیں سارے جرم جب اپنے حساب میں لکھنا

سوال یہ ہے کہ پھر کیا جواب میں لکھنا

برا سہی میں پہ نیت بری نہیں میری

مرے گناہ بھی کار ثواب میں لکھنا

رہا سہا بھی سہارا نہ ٹوٹ جائے کہیں

نہ ایسی بات کوئی اضطراب میں لکھنا

آپ کے قرب میں جان جاں سارے موسم سہانے لگے

 آپ کے قرب میں جان جاں سارے موسم سہانے لگے 

زیست مشکل ہوئی جس گھڑی چھوڑ کر آپ جانے لگے

مے کدہ اور یہ جام و سبو تھے بھلا کب مری جستجو

مرہمِ عشق درکار تھا ہم بھی پینے پلانے لگے 

موت کی انت ہچکی تلک بھول پائے نہ ہم آپ کو

دکھ مگر ہے مجھے آپکو سارے جھوٹے فسانے لگے

بادباں جب بھی سر موج رواں کھولتے ہیں

 بادباں جب بھی سرِ موجِ رواں کھولتے ہیں

غیظ میں  آئے سمندر کے بھنور بولتے ہیں

پھیلتا جاتا ہے ہر سمت دھنک رنگ طلسم 

چاندنی رات میں جب ساتواں در کھولتے ہیں

ہاں بچا لیتی ہے اس بوسے کی تریاقی ہی

تلخئ زہر رگِ جاں میں جو ہم گھولتے ہیں 

میں نے بھوک کو دیکھا ہے

 بھوک


میں نے بھوک کو دیکھا ہے

اس کے ناخن گندے ہیں

اس کی صورت میلی ہے

اس کے جبڑے ڈھیلے ہیں

اس کے پیٹ پہ پتھر ہیں

سنا ہے وہ مجھ کو بھلانے لگا ہے

 سنا ہے وہ مجھ کو بھلانے لگا ہے

تبھی اپنے احساں جتانے لگا ہے

سنی جب سے اس نے رقیبوں کی باتیں

وہ تب سے نگاہیں چُرانے لگا ہے

بچھڑنے کا لگتا ارادہ ہے اس کا

قصیدے جو شب بھر سنانے لگا ہے

کیسا غضب یہ اے دل پر جوش کر دیا

 کیسا غضب یہ اے دلِ پُر جوش کر دیا

تیری روش نے ان کو جفا کوش کر دیا

اس چشمِ پُر خمار کی سر مستیاں نہ پوچھ

سب کو بہ قدر حوصلہ مے نوش کر دیا

مجبور ہو چکی تھی زباں عرضِ حال پر

لیکن تِری نگاہ نے خاموش کر دیا

اپنے بیٹوں میں خلفشار نہ ہونے دیتے

 اپنے بیٹوں میں خلفشار نہ ہونے دیتے

ایک ہی صحن میں دیوار نہ ہونے دیتے

تم سے لُٹنے کی شکایت نہیں بس اتنا ہے

یہ تماشا سرِ بازار نہ ہونے دیتے

کم سے کم دوست مِرے اتنا تو کر سکتے تھے

مجھ پہ پیچھے سے کوئی وار نہ ہونے دیتے

ابھی کچھ اور سانسیں رہ گئی ہیں

ابھی کچھ اور


ابھی کچھ اور سانسیں رہ گئی ہیں

ابھی کچھ اور رسالوں تک مجھے گننا ہے ان کو

ابھی کچھ قرض ہے مجھ پر سبھی کا

ابھی کچھ اور خوشیاں بانٹنی ہیں

ابھی کچھ قہقہوں کو نغمگی خیرات کرنی ہے

عقل نفیس رکھتا ہے اپنے ہی آپ میں

 عقلِ نفیس رکھتا ہے اپنے ہی آپ میں

اس شخص کو میں سوچ میں جھلا بنا رہا ہوں

بنجر زمین ذہن کی آوارگی نہ کر

میں سر زمینِ عشق کو معلیٰ بنا رہا ہوں

لیلیٰ تُو بن سکے گی نہ معلوم ہے مجھے

مجنوں میں اپنے آپ کو واللّٰہ بنا رہا ہوں

مسافروں کو تھکن گام گام ہوتی ہے

 مسافروں کو تھکن گام گام ہوتی ہے

کرو قیام کہ ہمت تمام ہوتی ہے

ہماری سمت بتا اے مِرے ستارہ شناس

کہ ایک دن میں کئی بار شام ہوتی

پلک جھپکنا گنہگار کر رہا ہے مجھے

وہ اس وثوق سے محوِ کلام ہوتی

وسعت کون و مکاں میں وہ سماتے بھی نہیں

 وسعتِ کون و مکاں میں وہ سماتے بھی نہیں

جلوہ افروز بھی، ہیں سامنے آتے بھی نہیں

پارسائی کا ہماری نہیں دنیا میں جواب

وقت آ جائے تو دامن کو بچاتے بھی نہیں

ہم وہ میکش ہیں کی ساقی کی نظر پھرتے ہی

جام کی سمت نگاہوں کو اٹھاتے بھی نہیں

جب فصل بہاراں آتی ہے شاداب گلستاں ہوتے ہیں

 جب فصلِ بہاراں آتی ہے شاداب گلستاں ہوتے ہیں

تکمیلِ جنوں بھی ہوتی ہے اور چاک گریباں ہوتے ہیں

پُر کیف فضائیں چلتی ہیں، مخمور گھٹائیں چھاتی ہیں

جب صحنِ چمن میں جلوہ نما وہ جانِ بہاراں ہوتے ہیں

ہوتا ہے سکونِ قلب و جگر، ہر زخم میں لذت آتی ہے

او ناوکِ افگن تیر تِرے تسکین رگِ جاں ہوتے ہیں

نبی کی نعت لکھوں یہ کہاں مجال مجھے

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


نبیؐ کی نعت لکھوں یہ کہاں مجال مجھے

خدا کرے کہ ملے یہ بھی اب کمال مجھے

قلم میں اب مِرے خوشبو ہے نامِ احمدﷺ کی

میں جانتی ہوں نہ آئے گا اب زوال مجھے

یہ کیا کہ چاروں طرف ہے منافقوں کا ہجوم

میں گِر رہی ہوں خداوندا! اب سنبھال مجھے

سرور رہتا ہے کیف دوام رہتا ہے

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


سُروُر رہتا ہے کیفِ دوام رہتا ہے

لبوں پہ میرے درودﷺ و سلام رہتا ہے

بری ہیں نارِ جہنم سے خدا کی قسم

وہ جس کو ذکرِ محمدﷺ سے کام رہتا ہے

جو ایک بار انہیںﷺ دیکھ لے مقدر سے

تمام عمر انہیںﷺ کا غلام رہتا ہے

دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


دل میں ہو یاد تیریﷺ گوشۂ تنہائی ہو

پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو

آج جو عیب کسی پر نہیں کُھلنے دیتے

کب وہ چاہیں گے میری حشر میں رُسوائی ہو

آستانہ پہ تِرےﷺ سر ہو اجل آئی ہو

اور اے جانِ جہاں تُو بھی تماشائی ہو

میرے کریم کرم تو نے بے شمار کیا

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


میرے کریم کرم تُو نے بے شمار کیا

مجھے غلام، اُنہیںﷺ میرا شہریار کیا

بلا کے عرش پہ حق نے تجھے شب معراج

تیرے سپرد خدائی کا اقتدار کیا

فلک پہ شہرہ ہوا تیری آمد آمد کا

سلام جھک کے فرشتوں نے بار بار کیا

Wednesday 21 September 2022

اے دوست مرے واسطے بس اب یہ دعا کر

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


اے دوست مِرے واسطے بس اب یہ دعا کر

کیفی کو الٰہی! غم محبوبﷺ عطا کر

کچھ اشکِ ندامت کے سوا پاس نہیں ہے

لایا ہوں دامن میں یہی اپنے بچا کر

یہ اشکِ ندامت بھی بڑی چیز ہیں اے دل

آنکھوں میں چھپا لے دُر مقصور بنا کر

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

 عارفانہ کلام نعت و منقبت


لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب

گنبد آبگینہ رنگ، تیرے محیط میں حباب

عالم آب و خاک میں، تیرے ظہور کا فروغ

ذرۂ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب

شوکت سنجر و سلیم، تیرے جلال کی نمود

فقر جنید و با یزید، تیرا جمال بے نقاب

اب دعائیں مانگتے ہوئے ڈر لگتا ہے

 لہو نچوڑتی خبریں 


اب دعائیں مانگتے ہوئے ڈر لگتا ہے 

دہشت، امن کے صحیفوں سے نکال کر پھیلائی جا رہی ہے 

ایمان خطرے میں ہے 

اب محمود و ایاز کا ایک صف میں کھڑے رہنا ٹھیک نہیں 

مفتیوں کا ایک دوسرے کو کافر کہے بغیر 

سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من تجھ کو میں دے سکوں گا

 گیت


سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من تجھ کو میں دے سکوں گا

پھر بھی یہ وعدہ ہے تجھ سے تو جو کرے پیار مجھ سے

چھوٹا سا گھر تجھ کو دوں گا دکھ سکھ کا ساتھی بنوں گا

سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جان من ۔۔۔۔۔


جب شام گھر لوٹ آؤں گا ہنستی ہوئی تُو ملے گی

مٹ جائیں گی ساری سوچیں بانہوں میں جب تھام لے گی

کرنے کا عشق ہم کو طریقہ سکھائیے

 کرنے کا عشق ہم کو طریقہ سکھائیے

ہم کو بہانا خون پسینہ سکھائیے

ہم خودکشی سے باز یہاں کس طرح رہیں

جینے کا آپ ہم کو قرینہ سکھائیے

اترے ہوئے ہیں ہم تو سمندر میں عشق کے

کیسے ڈبوئیں اپنا سفینہ سکھائیے

ذہن کی عمارت میں یاد اک دریچہ ہے

یاد اک دریچہ ہے


ذہن کی عمارت میں

یاد اک دریچہ ہے

اور اس دریچے کے

گرد دور تک پھیلا

وقت کا سمندر ہے

آئینہ دار جلوۂ جانانہ بن گیا

 آئینہ دار جلوۂ جانانہ بن گیا 

ہر ذرہ کائنات کا دیوانہ بن گیا 

محفل میں ان کی صورتِ پروانہ بن گیا 

جس میں ذرا بھی ہوش تھا دیوانہ بن گیا 

قائم رہا نماز میں بھی ذوقِ معصیت 

اٹھے دعا کو ہاتھ تو پیمانہ بن گیا 

وہ عکس تھی مست بہاروں کا

 خدا حافظ


وہ عکس تھی مست بہاروں کا 

وہ رنگ تھی شوخ نظاروں کا 

وہ نور تھی چاند ستاروں کا  

وہ میری آنکھ کا تارا تھی 

میں جان سے اس کو پیارا تھا 

عکس جمال یار سے جلوہ نما ہیں ہم

 عکسِ جمالِ یار سے جلوہ نما ہیں ہم

کرنوں کی طرح پھیلے ہوئے جا بجا ہیں ہم

ہم سے نظر ملاؤ کہ درد آشنا ہیں ہم

اس دور بے وفا میں سراپا وفا ہیں ہم

ہاتھوں کی ان لکیروں کا قصہ عجیب ہے

پڑھنے کے بعد بھی نہ سمجھ پائے کیا ہیں ہم

وہ چہرہ کیسا چہرہ تھا

 وہ چہرہ کیسا چہرہ تھا

وہ چہرہ

کتنا بھولا تھا، کتنا معصوم

وہ آنکھیں کیسی آنکھیں تھیں

جو پیار سے چمکتی تھیں

اور میں

ہم نے اک عمر گزاری جسے پانے کے لیے

 ہم نے اک عمر گزاری جسے پانے کے لیے

وہ کہیں خود کو بدل دے نہ زمانے کے لیے

اس کی بیمارئ دل کی ہے جہاں میں افواہ

یہ تماشہ ہے فقط مجھ کو بلانے کے لیے

آج رخصت کے لیے پیش کیا ہے اس نے

جو بہانہ تھا کبھی ملنے ملانے کے لیے

دوست جتنے بھی تھے مزار میں ہیں

 دوست جتنے بھی تھے مزار میں ہیں

غالباً میرے انتظار میں ہیں

وہ نہ ہوتے مِرا وجود نہ تھا

میں نہ ہوتا وہ کس شمار میں ہیں

شاخِ ادراک میں جو کانٹے ہیں

پھول بننے کے انتظار میں ہیں

خیال کے پھول کھل رہے ہیں بہار کے گیت گا رہا ہوں

 خیال کے پھول کھل رہے ہیں بہار کے گیت گا رہا ہوں

تِرے تصور کی سرزمیں پر نئے گلستاں کھلا رہا ہوں

میں سارے برباد کن خیالوں کو دل کا مہماں بنا رہا ہوں

خِرد کی محفل اجڑ چکی ہے جنوں کی محفل سجا رہا ہوں

اُدھر ہے آنکھوں میں اک شرارت اِدھر ہے سینے میں اک چبھن سی

نظر سے وہ مسکرا رہے ہیں، جگر سے میں مسکرا رہا ہوں

پلکوں پہ بٹھا مجھ کو یا آنکھوں سے گرا دے

پلکوں پہ بٹھا مجھ کو یا آنکھوں سے گرا دے

میں تیرا گنہ گار ہوں جو چاہے سزا دے

سہما ہوا رہتا ہے عجب خوف سے اب تو

اس دل کی پریشانی مجھے کوئی بتا دے

وہ آنکھ جو خوابوں کا چمن زار تھی پہلے

اب نیند سے بیزار ہے اک خواب نیا دے

ہمیں پھر سے عطا ہو سرفرازی یا رسول اللہ

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


ہمیں پھر سے عطا ہو سرفرازی یا رسول اللہﷺ

جواں جذبوں میں ہو روحِ حجازی یا رسول اللہﷺ

ہمیں گھیرا ہوا ہے دشمنوں نے چار جانب سے

کہاں ہیں ملتِ بیضا کے غازی یا رسول اللہﷺ

امیروں کو فراغت ہی نہیں ہے عیش و عشرت سے

غریبوں کی ہو حق سے کارسازی یا رسول اللہﷺ

درد و آلام کے مارے ہوئے کیا دیتے ہیں

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت


درد و آلام کے مارے ہوئے کیا دیتے ہیں

ہم تو بس انﷺ کی نگاہوں کو دعا دیتے ہیں

جو بھی مجرم مری سرکارؐ کے دامن میں چھپے

عرش والے اسے جنت کی سزا دیتے ہیں

عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوقِ جنوں

عشق والے ہیں جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں

فضائے ذہن و بدن گل پگھلنے لگتی ہے

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


فضائے ذہن و بدن گل پگھلنے لگتی ہے

لبوں پہ نعتِ نبیﷺ جب مچلنے لگتی ہے

درودﷺ و نعت مِری آخری دوائیں ہیں

انہیں پڑھوں تو طبیعت سنبھلنے لگتی ہے

کرے جو بات کوئی نعتیہ تکلم میں

تِرے فقیر کی لُکنت غزلنے لگتی ہے

چل دیا ہوں سوئے طیبہ میں سہاروں سے الگ

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام


چل دیا ہوں سُوئے طیبہ میں، سہاروں سے الگ

پا پیادہ کی ہے رفتار،۔ سواروں سے الگ

انؐ کی معراج ہے سب راہگزاروں سے الگ

کہکشاؤں سے جدا، چاند ستاروں سے الگ

ہیں ستونوں کی طرح چار صحابہؓ ان کے

اُمتی ہو نہیں سکتے کبھی چاروں سے الگ

وہ بے شعور ہے اب اس سے کیا خفا ہونا

عارفانہ کلام منقبت


 وہ بے شعور ہے اب اس سے کیا خفا ہونا 

جسے نصیب نہیں ہے، حسینؑ کا ہونا 

کسی اُبھرتے ہوئے آفتاب جیسا تھا 

اس ایک خیمے کا بُجھتا ہوا دِیا ہونا

بتا رہی ہے مسلسل یہ خیر کی ترتیب

زمیں پہ کعبہ، نجف اور کربلا ہونا

Tuesday 20 September 2022

زندہ باد شہ دین زندہ باد

 عارفانہ کلام نعتیہ کلام و منقبت


زندہ باد شہ دینﷺ زندہ باد

مچل کے بولے یہ روح الامین زندہ باد

زندہ باد شہ دينﷺ زندہ باد

*

زمیں سے عرش  بریں پر جنہیں بلایا ہے 

خدا نے نور سے اپنے اُنہیں بنایا ہے 

تمہارا روپ مکمل ہو نہیں سکتا

 بے بسی


تمہارا روپ مکمل ہو نہیں سکتا

کہ تم بیک وقت 

سرور اور وحشت کی انتہا پر ہو 

پھر نہ جانے کیوں

آئینے کی اس سرگوشی پہ وہ لڑکی 

سنگھار کرتے رو پڑی

اگر بے وفا تجھ کو پہچان جاتے

 فلمی گیت 


اگر بے وفا تُجھ کو پہچان جاتے

خدا کی قسم ہم محبت نہ کرتے

جو معلوم ہوتا یہ انجامِ اُلفت

تو دل کو لگانے کی جرأت نہ کرتے


جسے پھول سمجھا، وہی خار نکلا

تیری طرح جُھوٹا تیرا پیار نکلا

جو اُٹھ جاتے پہلے ہی آنکھوں سے پردے

تو بُھولے سے بھی ہم تو اُلفت نہ کرتے


میرا دل تھا شیشہ، ہُوا چُور ایسا

کہ اب لاکھ جوڑو تو جُڑ نہ سکے گا

تو پتھر کا بُت ہے، پتہ گر یہ ہوتا

تو دل ٹوٹنے کی شکایت نہ کرتے


اگر بے وفا تُجھ کو پہچان جاتے

خدا کی قسم ہم محبت نہ کرتے

جو معلوم ہوتا یہ انجامِ اُلفت

تو دل کو لگانے کی جرأت نہ کرتے


پریم دھون

چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو (مزاحیہ)

 شکیل بدایونی کے مشہور زمانہ گیت چودھویں کا چاند ہو پر کی گئی تضمین


چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

اچھی طرح سکا ہوا شامی کباب ہو


آنکھیں ہیں جیسے چہرے پہ قبریں کُھدی ہوئی

زلفیں ہیں جیسے راہوں میں جھاڑی اُگی ہوئی

جان بہار تم تو کباڑی کا خواب ہو

چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو


ایسا نہیں کہ مرتے ہیں بس تم پہ نوجواں

آہیں تمہارے عشق میں بھرتے بڑے میاں

بدبو ہے جس میں شوز کی تم وہ جُراب ہو

چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو


احمد علوی

شب غم کے اندھيروں ميں کمی ہونے نہيں ديتے

 شب غم کے اندھيروں ميں کمی ہونے نہيں ديتے

يہ کيسے بلب ہيں جو روشنی ہونے نہيں ديتے

مسلمانوں کی خواہش ہے کہ وہ سب ايک ہو جائيں

مگر ان کو اکھٹا مولوی ہونے نہيں ديتے

ہے نيچے کھردری پتلون، اوپر شرٹ مردانہ

مگر ايسا جہاں کے چودہری ہونے نہيں ديتے

سائیاں عشق کا آزار مکمل کر دے

 سائیاں! عشق کا آزار مکمل کر دے

تُو مِری راہ کی دیوار مکمل کر دے

کوئی آسانی نہیں چاہتا ہوں میں تجھ سے

ایسا کر، زندگی دُشوار مکمل کر دے

دستیابی کو مِرے ہاتھ ترس جاتے ہیں

تُو مِرے شہر کا بازار مکمل کر دے

گھٹا زلفوں کی جب سے اور کالی ہوتی جاتی ہے

 گھٹا زُلفوں کی جب سے اور کالی ہوتی جاتی ہے

رُخِ روشن کی تابانی مثالی ہوتی جاتی ہے

مِرے بختِ سیہ کے حاشیے پر روشنی سی ہے

مِری تاریک شب کچھ پھر اُجالی ہوتی جاتی ہے

اُٹھے جاتے ہیں دیدہ ور سبھی آہستہ آہستہ

یہ دنیا معتبر لوگوں سے خالی ہوتی جاتی ہے

فصیل جاں مجاز کی حقیقتوں پہ دم بخود

 فصیلِ جاں مجاز کی حقیقتوں پہ دم بخود

نیزہ و تیغ میں چھپی عنایتوں پہ دم بخود

نشانِ خوشدلی ملا کیا تھا خامشی سے ہی

بصارتوں کی چیختی وضاحتوں پہ دم بخود

ہے بندگی فہم رسا نیابتوں کی روشنی

مروتوں کے سوگ میں ہے نخوتوں پہ دم بخود

شدت احساس تنہائی جگایا مت کرو

 شدتِ احساسِ تنہائی جگایا مت کرو

مجھ کو اتنے سارے لوگوں سے ملایا مت کرو

تم ہمارے حوصلے کی آخری اُمید ہو

تم ہمارے زخم پر مرہم لگایا مت کرو

آخری لمحات میں کیا سوچنے لگتے ہو تم

جیت کے نزدیک آ کر ہار جایا مت کرو

تشریف شب وعدہ جو وہ لائے ہوئے ہیں

 تشریف شبِ وعدہ جو وہ لائے ہوئے ہیں 

سر خم ہے نظر نیچی ہے شرمائے ہوئے ہیں 

رُخ پر جو سِیہ زُلف کو بِکھرائے ہوئے ہیں 

وہ چودھویں کے چاند ہیں گہنائے ہوئے ہیں 

پُھولوں سے سوا ہے بدنِ پاک میں خُوشبو 

کب عطر لگانے سے وہ اِترائے ہوئے ہیں

احساس کی رگوں میں اترنے لگا ہے وہ

 احساس کی رگوں میں اُترنے لگا ہے وہ

اب بُوند بُوند مجھ میں بِکھرنے لگا ہے وہ

گُمنامیوں کی اندھی گُپھائیں ہوں نوحہ خواں

مانندِ آفتاب اُبھرنے لگا ہے وہ

کیسے کہوں کہ غم ہوا خوابوں کی بھیڑ میں

زخموں کا اِندمال تو کرنے لگا ہے وہ