جھیل آنکھوں میں محبت کے کنول ہوتے ہیں
دل میں اتریں تو یہ عنوان غزل ہوتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ ہے کچے مکانوں کی زکوٰۃ
جن سے تعمیر یہاں قصر و محل ہوتے ہیں
کوئی عارف ہو تو یہ راز سمجھ سکتا ہے
سامنے آتے ہیں جس آج میں کل ہوتے ہیں
مہِ کامل تِری قسمت ہے تِرا حسن و عروج
لوح پر لکھے ہوئے بخت ازل ہوتے ہیں
سُرخیاں دیکھ کے اخبار کی ڈر جاتا ہوں
اور متن پڑھ لوں تو اعصاب بھی شل ہوتے ہیں
شہر میں کھویا ہوا یار بھی مل سکتا ہے
یہ کرشمے کسی نیکی کا بدل ہوتے ہیں
کچھ مسیحائی، کبھی ایک تسلی خاور
کر سکے کوئی تو یہ نیک عمل ہوتے ہیں
مرید عباس خاور
No comments:
Post a Comment