تیرے چھونے سے رگ و پے میں نشہ بڑھتا ہے
مجھ سا صحرا بھی کسی طور ہرا پڑتا ہے
اونچا ہنستی ہوں تو بنتا ہے تماشا غم کا
دوسرا یہ کہ تأثر بھی بُرا پڑتا ہے
کس طرح آئے وہ پنجاب کا شہزادہ ادھر
میرے کشمیر کا ہر رستہ کڑا ہے
تجھ کو جانا ہے تو جا دل سے مگر یاد رہے
اسی بت خانے کے رستے میں خدا پڑتا ہے
وہ عقیدت ہے تِری ذات سے مجھ کو اب تک
جو تِرا نام بھی لکھوں تو وفا پڑتا ہے
ایک میں ہوں کہ جسے چاند ستاروں کی طلب
ایک وہ ہے کہ اداؤں پہ گِرا پڑتا ہے
سرخرو ہو گی محبت میں جنونی عورت
اور وہ مرد جو لہجے کا کھرا پڑتا ہے
تنزیلہ افضل
No comments:
Post a Comment