کب مجھ کو زعمِ خویش کہ میں برگزیدہ ہوں
سن لے مِری صدا کہ بہت دل دریدہ ہوں
دے نالۂ فراق کو داؤدؑ کی زباں
میں ہوں زبورِعشق مگر ناشنیدہ ہوں
گہ فرط و انبساط ہوں عہدِوصال میں
گہ عارضِ فراق پہ اشکِ چکیدہ ہوں
میں چشمِ التفاتِ بہاراں سے ماوراء
دستِ خزاں میں صورتِ شاخِ بُریدہ ہوں
آبِ رواں پہ نقش تو بنتے نہیں کبھی
سو مٹ چکے ہیں خواب کہ میں آبدیدہ ہوں
محب الحق وفا
No comments:
Post a Comment